وطن کی حفاظت ہم پرفرض

منگل 21 فروری 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ان کی آنکھوں سے موسلادھار بارش کی طرح آنسو رواں دواں تھے۔۔ وہ ہچکیاں لیکر مسلسل روئے جارہے تھے۔۔ سر نیچے کئے وہ ایک چھوٹے سے رومال کی مدد سے آنسوؤں کا سمندر خشک کرنے کی ناکام کوشش میں نہ جانے کب سے مصروف تھے ۔۔ میرے پاؤں کی آہٹ سن کر اس نے سر اوپر کی طرف اٹھایا۔۔ آنکھیں ان کی سرخ اور چہرہ آنسوؤں کا سمندر بہنے سے پانی پانی ہو چکا تھا ۔

۔ مجھے دیکھ کر وہ بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔۔ ان کی حالت دیکھ کر میری آنکھیں بھی نم اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔۔ اس سے پہلے کہ میں بھی دھاڑیں مار کر چیخ اٹھتا۔۔ اس نے رومال سے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا ۔۔جوزوی صاحب ۔۔ یہ ظالم ہمیں جینے نہیں دے رہے ۔۔ ہمارے ہاتھ اور دل تو ابھی شہدائے لاہور کے خون سے رنگین تھے کہ ظالموں نے لعل شہباز قلندر کے مزار کو بھی خون میں نہلا کر ہمارے وجود زخموں سے چور چور کر دئیے۔

(جاری ہے)

۔ جوزوی صاحب ۔۔ لاہور اور لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دھماکوں میں جو لوگ خون سے رنگین اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔۔ ان کی ماؤں ۔۔ بہنوں ۔۔ بیٹیوں اور رشتہ داروں پر کیا گزر رہی ہو گی۔۔؟ وہ تو قیامت کا سماں ہو گا جب کسی ماں ۔۔ بہن ۔۔ بیٹی اوردیگررشتہ داروں نے اپنے لخت جگروں کے اعضاء چن چن کر ہاتھوں میں اٹھائے ہوں گے ۔۔ بیٹوں کی نعشیں ۔

۔ بھائیوں کے جلے کٹے جسم کے اعضاء اور باپ کے خون آلود کپڑے دیکھ کر ماؤں ۔۔ بہنوں اور بیٹیوں کے دل تو اس وقت پھٹ سے گئے ہوں گے ۔۔ باپ ۔۔ بیٹے اور شوہر جب شام تک گھر نہیں آتے تو مائیں ۔۔ بہنیں ۔۔ بیٹیاں ۔۔ بیویاں اور بچے ان کے آنے تک بے چین ہی رہتے ہیں ۔۔ ماں کہتی ہے ۔۔ میراپتر ابھی تک نہیں آیا ۔۔ بچے پوچھتے ہیں ۔۔ ماں ابو کب آئیں گے ۔۔

۔لاہور اور لعل شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دھماکوں میں شہید ہونے والے تو اس جہاں سے ہی گئے ۔۔وہ اب کبھی گھر واپس نہیں آئیں گے ۔۔ روز شام کو بیٹے کی راہ دیکھ دیکھ کر جب ماں پوچھے گی ۔ ۔ کہ میرا پتر کیوں نہیں آیا۔۔۔؟ تو اس کو آگے سے کیا جواب ملے گا ۔۔؟ ٹافیوں اور کھلونوں کے انتظار میں رات گئے تک بیٹھنے والے معصوم پھول جیسے بچے جب پوچھیں گے ۔

۔ ماں ابو کب آئیں گے ۔۔؟ تو اس وقت اس ماں کی کیا حالت ہو گی۔۔؟ ایک جنازہ اٹھتا ہے تو پھر کئی سال تک اس گھر کے درودیوار غمگین اور شہر و علاقے کی فضاء سوگوار رہتی ہے ۔۔ لیکن جوزوی صاحب ۔۔ یہاں تو ایک نہیں ۔۔ سینکڑوں جنازے اٹھے ہیں ۔۔ کسی ایک گھر کے درودیوار غم و خون سے لال نہیں بلکہ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ہے ۔۔ ایک دو نہیں درجنوں و سینکڑوں گھر اجڑے ۔

۔اور پورا گلستان ویران ہو گیا ہے۔۔۔ جس چمن کو ہم نے لہو کے پانی سے آباد اور گلزار کیا ۔۔ ظالموں نے آج اسے ہی اجاڑ دیا ۔۔جوزوی صاحب ۔۔ ہم سے خوشیاں چھیننے والے یہ ظالم لوگ مسلمان تو دور یہ انسان بھی نہیں ۔۔ ان ظالموں نے نہ جانے اب تک کراچی سے پشاور۔۔ گلگت سے کوئٹہ اور سوات سے مری تک کتنے ہنستے بستے گھر اجاڑے ۔۔ کتنی ماؤں کی ممتا چھینی ۔

۔ کتنی بہنوں کے سہاگ اجاڑے ۔۔ کتنے پھول جیسے بچوں کو یتیم کیا ۔۔ ان ظالموں کے ہاتھوں اپنوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر ہم تھک چکے ہیں ۔۔ شہداء کی قبروں پر آنسو بہا بہا کر ہماری آنکھیں بھی خشک سی ہو گئی ہیں ۔۔ اب ہم میں مزید کسی پیارے کی نعش اٹھانے کی ہمت نہیں ۔۔ نہ ہی کسی اپنے کے جنازے کوکندھادینے کی سکت ہے۔۔ہمارا پورا وجود زخموں سے چور چور اور دل خون سے لال ہو چکے ہیں ۔

۔ اب ہم نے کسی اپنے کو نہیں ۔۔ ان ظالموں کو قبروں میں اتارنا ہے ۔۔ یہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ۔۔ جب تک ان کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا ۔۔۔ تب تک ہمیں کبھی چین نہیں آئے گا۔۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔ جب تک ان ظالموں کاکام تمام نہیں کیا جاتا۔۔ہمارے دلوں پر لگنے والے زخم کبھی مندمل نہیں ہو سکیں گے ۔

۔ سانحہ لاہور اور لعل شعباز قلندر کے مزار پر ہونے والے دھماکے نے پوری قوم کو غمگین کر دیا ہے ۔۔ دہشتگردی کے ان واقعات پر پورا ملک سوگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔۔ تین چار دن میں درجنوں نہیں سینکڑوں افراد کی شہادت یہ کوئی معمولی اور برداشت کرنے والی بات نہیں ۔۔ یہ ظلم ۔۔ سفاکیت ۔۔ بے غیرتی ۔۔ وحشیت اور بربریت کی انتہاء ہے ۔۔ حکمران تو ہر واقعے ۔

۔ سانحے اور دھماکے کے بعد روایتی مذمت کرکے جان چھڑا دیتے ہیں ۔۔ لیکن اب کی بار غفلت ۔۔ لاپرواہی اور بزدلی سے ہرگز کام نہیں چلے گا ۔۔ ملک میں امن کے قیام اور دہشتگردی کے واقعات میں اپنوں کی جدائی سے ہمارے دلوں پر لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے اب ایک ایک دہشتگرد ۔۔ امن دشمن اور درندے کو دنیا کے سامنے عبرت کا نشانہ بنانا ہوگا ۔

۔ زخمی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال کر دشمن نے اپنی تباہی اور بربادی کا آغاز کر دیا ہے ۔۔ دشمن کی اس سازش میں اب افغانی ۔۔ پاکستانی ۔۔ ہندوستانی یا انگلستانی جو بھی ملوث ہو ۔۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کے آگے ڈالنے ہوں گے۔۔۔ اس ملک کے امن اور اپنوں کے تحفظ سے ہمیں کوئی بھی چیز پیاری نہیں ۔۔ ہم ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے تحریک قیام پاکستان میں قربانیوں کی ایک لازوال اور عظیم تاریخ رقم کی ۔

۔ ہمارے آباؤ اجداد نے دشمن سے اس ملک کو آزاد کرایا۔۔ اب ہم جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کریں گے۔۔ہم حالات سے گھبرانے والے نہیں ۔۔نہ ہی دشمن کے سامنے ہتھیارڈالنے والے ہیں ۔۔ہماری ماؤں۔۔بہنوں اوربیٹیوں کے سپنوں۔۔امیدوں اورخوابوں پروارکرنے والوں نے اپنی موت کودعوت دے دی ہے۔۔کراچی سے گلگت اورپشاورسے کوئٹہ تک پوری قوم دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی پشت پرہے۔

۔جن لوگوں نے ہمارے گھروں ۔۔شہروں ۔۔دلوں اورگلستان پرحملہ کیا۔۔اب ہم ان کوچن چن کرانجام تک پہنچائیں گے۔۔یہ وطن ہماراتھا۔۔ہماراہے ۔۔اورہماراہی رہے گا۔۔اس کی طرف اٹھنے والے ہاتھ ہم جڑوں سے کاٹ دیں گے۔۔دشمن اگریہ سمجھتاہے کہ وہ اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں اوراوچھی حرکتوں سے ہمارے حوصلے پست اورجذبے ٹھنڈے کرلے گاتویہ اس کی بھول ہے۔

۔ہمیں ایسی بھونڈی حرکتوں سے آزمانے والے تحریک قیام پاکستان کی تاریخ صرف ایک بارہی پڑھ لیں ۔۔اس ملک میں رہنے والوں کے جسم میں انہی لوگوں کاخون شامل ہے ۔۔جنہوں نے آگ اورخون کے دریاعبورکرکے پاکستان بنایا۔۔موت سے ہم ڈرنے والے نہیں ۔۔شہادت ہم سب کی آرزوہے۔۔اس وطن پرجان نچھاورکرناہم کل بھی فرض سمجھتے تھے ۔۔آج بھی سمجھتے ہیں اورآنے والے کل بھی اس ملک کی بقاء اورسلامتی کے لئے ہم سب کی جانیں حاضرہیں۔۔دشمن جان لے۔۔ہم جان تودے سکتے ہیں ۔۔مگراس ملک کی سلامتی پرکوئی آنچ ہمیں برداشت نہیں ۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :