بنیادی حقوق

ہفتہ 23 جولائی 2016

Abdur Rehman

عبدالرحمن

شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بغیر ریاستی ڈھانچے کی مضبوطی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔آئین کے تحت شہریوں کو دی جانے والی بنیادی حقوق کی ضمانت ہی انہیں ریاست سے وفاداری پر آمادہ کرتی ہے۔شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے والی ریاستیں ہی فلاحی ریاست کا درجہ پاتیں ہیں۔ ملکی سیاسی جماعتوں کے رہنماءروٹی ،کپڑاا،مکان اور بنیادی حقوق کے پرکشش نعروں کی سیڑھی لگا کر اقتدار حاصل کرتے آ رہے ہیں۔ بار بار ٹھوکر کھانے کے باوجود عوام الناس نے ہمیشہ حکمران اشرافیہ پر اعتماد کا اظہار کیا،،انہیں قوم سے کئے وعدوں کو پورا کرنے، عوام اور حکمرانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کے خاتمے کا ووٹ دیا مگر حکمران اشرافیہ نے ہمیشہ عوام کے اعتماد کو توڑا اور ان کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

(جاری ہے)

پیسے کے بل بوتے، کھوکھلے نعروں اور سٹریٹ پاور کے بغیر اقتدار سنبھالنے والے حکمران عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں ہمیشہ ناکام ثابت ہوئے۔کرسی اقتدارپر بیٹھنے کے بعدنام نہاد حکمران شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا تو دور کی بات ان سے کئے جانے والے وعدے پورے کرنے میں بھی ناکام رہے۔ماضی کے حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں کے منفی رویوں کے سبب شہریوں اور حکمرانوں کے درمیان تعلقات کی خلیج نے مزید وسعت اختیار کی،عوام حکمرانوں پرمزید اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔عوام کب تک انہیں برداشت کریں گے حکمرانوں کے اندر سے اٹھنے والا یہی سوال انہیں خوف میں مبتلا رکھتاہے،حکمرانوں کے اندر کے اسی خوف نے انہیں لوٹ کھسوٹ کا پیسہ،،کاروبار،اور جائیدادیں بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور کئے رکھا جس کا نتیجہ پانامہ لیکس کی شکل میں سامنے آیا۔سیاسی بازی گروں کی وعدہ خلافیاں ہوں یا پانامہ لیکس کے سکینڈل کا منظر عام پر آنادونوں ہی صورتوں میں یہ سیاسی بازی گر پشمیاں ہونے یا خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔سیاسی بازی گروں کی ذہنی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی زمینی حقائق کویکسر نظر انداز کرتے ہوئے ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی جانب سے ناکام بغاوت کو منظم سازش کا نام دے کر پاکستان میں بغلیں بجائی جا رہی ہیں،،سوال یہ ہے کہ اگر ترکی کی پوری فوج منظم طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے اقدام کرتی تو کیا ترکی میں جمہورئت برقرار رہ پاتی۔بلاشبہ جمہورئت کے دوام کے لئے ترک عوام کا ٹینکوں کے سامنے لیٹنا اور جان کی قربانیاں دینا قابل ستائش اقدام ہے
مگرہمارے کسی حکمران نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ سوچنا گوارا کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی فوج اقتدار پر قابض ہوتی رہی تو عوام الناس نے آگے بڑھ کر فوج کا استقبال کیوں کیا،،،مٹھائیاں کیوں تقسیم کرتے رہے اور ملک بدر کئے جانے والے سیاسی بازی گروں اور جمہورئت کو بچانے کے لئے ٹینکوں کے آگے کیوں نہیں لیٹے اور سڑکوں پہ کیوں نہ نکلے۔قوموں کی زندگی میں یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب پٹری سے اتری قوم کو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اور نئی منزل کا تعین کر کے آگے بڑھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موروثی سیاست کے پجاری،،نیب زدہ اور اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھنے والے حکمران قوم سے وعدہ خلافیاں کر کے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کے،،چور دروازوں سے اقتدار پہ قابض تو رہ سکتے ہیں مگر نہ تو عوام کے دلوں میں زندہ رہ سکتے ہیں نہ ہی انہیں رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی ملک کو منزل کی جانب گامزن کر سکتے ہیں۔ آئین کا راگ الاپنے والے سیاسی بازی گر اپنے مفاد والی آئینی شقوں پر تو فوری عمل کرتے ہیں جبکہ شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلقہ ان آئینی شقوںکو پس پشت ڈال دیتے ہیں جن سے شہریوں کی ریاست سے وفاداری میں اضافہ ہوتا ہے،،ریاست مضبوط ہوتی ہے ،شہریوں کو سر اٹھا کے جینے کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔حکمران اشرافیہ نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا ہوتا تو آج ڈاکٹرز،،اساتذہ،تاجر،وکلائ، مزدور،کسان،سرکاری ملازمین اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے سڑکوں پہ نہ ہوتے۔ اگر آئین کے آرٹیکل تین پر عمل کیا جاتا تو ملک سے جبری مشقت کے تحت مزدروں کو حقوق میسر آتے ،، جاگیرداری کی صورت میں استحصال کا خاتمہ یقینی ہونے سے مزاری،لغاری،ٹوانے،نیازی کی بجائے سب کے سب برابر کے شہری حقوق رکھتے۔آئین کے آرٹیکل چار پر عمل ہوتا تو ملک میں قبضہ گروپوں کو پنپنے کا موقع ہی نہ ملتا،،محکمہ پولیس کا نظام موثر ہونے سے پولیس گردی کے ذریعے بے گناہ شہری پولیس مقابلوں کے ذریعے اپنی جان سے نہ جاتے،،ملک پولیس سٹیٹ نہ کہلاتا بلکہ شہریوں کو آئین کے تحت ان کے جان و مال کا تحفظ یقینی ہوتا۔آئین کے آرٹیکل آٹھ پر عمل کیا جاتا تو جہیز کی رسم ریاستی سطح پر لعنت قرار پاتی،،پھر طلاقوں کی شرح نہ بڑھتی،،بہووں کو زندہ جلانے کی نوبت نہ آتی ،،ہر فرسودہ رسم معاشرے سے ختم ہو جاتی۔آئین کے آرٹیکل نو پہ عمل کیا جاتا تو ایک بھی بے گناہ شخص نہ تو جیل میں گل سڑ رہا ہوتا نہ ہی کسی بے گناہ کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا،،،سیاسی انتقامی کاروائیاں نہ ہونے سے شہریوں کی زندگیاں اور آزادیاں سلب نہ ہوتیں،،یکساں بنیادوں پر سیاسی ،،سماجی آزادیاں میسر آنے سے ملک میں متبادل سیاسی قیادت موجود ہوتی اور معاشرہ حقیقی بنیادوں پر آگے کی جانب گامزن ہوتا۔آئین کے آرٹیکل دس اے پر عمل کیا جاتا توہر شہری کو شفاف حق سماعت دستیاب ہوتا جس سے معاشرے میںناانصافی کو سرے سے پہنپنے کا موقع ہی میسر نہ آتا۔آئین کے آرٹیکل گیارہ پر عمل کیا جاتا تو عورتوں اور بچوں کی خریدو فروخت نہ ہوتی ،،انہیں زندگی جینے کے یکساں مواقع میسر آتے،،کوئی چھوٹا اپنے گھر کا بڑا نہ بنتا بلکہ ان کے ہاتھوں میں اینٹ گارے کی بجائے پین اور کتاب ہوتی۔آئین کے آرٹیکل انیس پر عمل کیا جاتا تو عوام براہ راست حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیتے جس سے حکمرانوں کو حاصل صوابدیدی اختیارات کے تحت اپنوں کو نوازنے کا سلسہ بند ہو جاتاجبکہ پروٹوکول کے خاتمے کے عمل کو یقینی بنایا جا سکتا تھا۔آئین کے آرٹیکل پچیس اے پر عمل کیا جاتا تو تعلیم کاروبار کا درجہ اختیار نہ کرتی،،فوزیہ پڑھ لکھ جاتی تو ایسا پیشہ ہی اختیار نہ کرتی جس سے وہ قندیل بلوچ کے نام سے متعارف ہوتی اور پھر نام نہاد غیرت کا شکار ہوتی۔سیاسی بازی گروں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ آئین سے انحراف کر کے ووٹ تو خریدے جا سکتے ہیں مگر ترک عوام کی طرح دلوں میں جگہ نہیں بنائی جا سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :