مردم شماری

پیر 9 مئی 2016

Abdur Rehman

عبدالرحمن

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ مجبور و مقہور ،،،بے بس اور لاچار انسانوں نے صدیوں تک جبر کا سامنا کر کے اپنی جدوجہد کے نتیجے میں انسانوں کے گلے میں پڑا ہوا غلامی کا طوق اتار پھینکا۔ سر اٹھا کے جینے کی رسم،،،عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کرنااسی جدوجہد کا خاصا اور آج کے مہذب دور کے لازمی تقاضے ہیں۔مہذب دنیا میں بسنے والے کسی بھی فرد کو اس کی شناخت اوربنیادی حقوق سے محروم کیا جاناغلامی سے بھی بدترین شکل گردانا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی دنیا کے قوانین کے تحت پیدا ہونے والے ہرفرد کی شناخت اور ان کے بنیادی حقوق تسلیم شدہ حقیقت ہیں۔ ریاست میں بسنے والے افراد کی جانب سے اپنے جیسے انسانوں سے جبری مزدوری اور بچوں سے مشقت لینے کے اقدامات ،،،جبکہ ریاستی سطح پرشہریوں کو ان کی شناخت اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جانا غلامی کی جدید شکلیں ہیں۔

(جاری ہے)

ریاست میں بسنے والا کوئی فرد اپنے جیسے دوسرے فرد کو جبری مشقت پر مجبور کرتا ہے تو قوانین کے تحت ریاستی ادارے ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کے مجاز ہیں تاہم ریاست کی غفلت کے تدارک کے لئے کوئی فورم موجود نہ ہونے سے پوری پوری نسلیں اپنی شناخت کھو رہی ہیں اور بنیادی حقوق سے محروم چلی آ رہی ہیں۔

ریاست اور اسکے حکمران اپنی عوام کے ساتھ کس حد تک مخلص ہیں اسکا اندازہ ریاست کی جانب سے کی جانے والی منصوبہ بندی سے لگایا جا سکتا ہے۔ریاستی سطح پر بہترین منصوبہ بندی درست اور حقیقی اعداد و شمار کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے۔ شہریوں کو ان کے شہری ،بنیادی حقوق اور انہیں شناخت فراہم کرنے کے لئے کوئی بھی قابل عمل منصوبہ مردم شماری کے بغیرپایا تکمیل تک پہنچانا کسی طور ممکن نہیں ہے ۔

ریاست تو دور کی بات کسی بھی ریاست میں موجود ایک گھر کا نظام موثر منصوبہ بندی کے بغیرنہیں چلایا جا سکتا ،،غیر موثر منصوبہ بندی کا لازمی نتیجہ گھر کی تباہی و بربادی اور اس میں رہائش پذیر خاندان اور ان کی آئندہ آنے والی نسل کو برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا ۔ملکی ترقی کے لئے لازم تھا کہ پانچ سالوں میں ایک مرتبہ مردم شماری ضرور کرائی جائے اور اسی بنیاد پر اگلے پانچ سال کی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ملک ترقی کی جانب آگے بڑھتا جائے۔

کسی بھی ریاست کو پانچ سالہ منصوبہ بندی کے حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد کے تحت ہی مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز کی پیدائش سے لے کر آج تک ملک میں کل پانچ مردم شماری کرائی گئی ںجو ہمارے حکمرانوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حکمرانوں کی یہی وہ مفاد پرستانہ کارکردگی ہے جویہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے ملک اور اس میں بسنے والے شہریوں سے کتنے مخلص اوروفادارہیں۔

پاکستان میں اٹھارہ برس قبل انیس سو اٹھانوے میں آخری مردم شماری کرائی گئی جس کا صاف نتیجہ یہ ہے کہ اٹھارہ سالوں سے وطن عزیز اندازوں اور تخمینوں کے ذریعے ہی چلایا جا رہا ہے،،،اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہے کہ ان اٹھارہ برسوں کے دوران جو افراد اس ملک میں پیدا ہوئے انہیں کوئی شناخت میسر آئی نہ ہی انہیں شہری اور بنیادی حقوق میسر آئے،،،کہنے کو تو وہ پاکستانی ہیں مگر وسائل کا رخ ان تک موڑا ہی نہیں گیا،،،، قانون اور ٹیکس تو سب پر یکساں بنیادوں پر نافذ کیا جاتا ہے مگر جب بھی ہر سال بجٹ بنایا جاتا ہے تو اس بجٹ میںاٹھارہ کروڑ افراد کے علاوہ فرضی اعداد و شمار کے دائرے سے باہر نکلے دیگر بے بس محروم تماشا پاکستانیوں کی فلاح و بہبود ،تعلیم ،،صحت اور ترقیاتی اقدامات کا خانہ خالی رکھا جاتاہے۔

مقام افسوس ہے کہ اٹھارہ کروڑ آبادی کاراگ الاپنے والے حکمران قوم سے حقیقی اعداد و شمار چھپاکر انہیں الو بنائے بیٹھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اٹھارہ برسوں سے پاکستان میں شرح پیدائش اٹھارہ یا انیس کروڑ افراد پہ آ کر رک گئی ہے،،،کیا ان اٹھارہ برسوں میں تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کر کے کوئی طالبعلم فارغ نہیں ہوا،،،،،کیا ملک میں آبادی بڑھنے کے ساتھ صحت کے مسائل میں اضافہ نہیں ہوا،،،،،کیا تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طالبعلم بیکار اور بے روزگاری کی زندگی بسر نہیں کر رہے،،،حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی مردم شماری کرا ئی جائے توملکی آبادی کے اعداد و شمار بیس ،بائیس کروڑ سے تجاوز ہوتے دیکھے جا سکیں گے یا شرح آبادی میں اس سے زیادہ کاانڈیکس دکھائی دے گا۔

اٹھارہ برسوں سے مردم شماری نہ کرانے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ حکمران چاہتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کی ایک ایک سانس پر عائد ٹیکس تو وصول کر لیا جائے مگر کاغذوں میں اٹھارہ کروڑ افراد ظاہر کر کے وسائل کا دھارا اٹھارہ کروڑنفوس میں تقسیم کیا جائے جبکہ باقی چار کروڑ افراد کے وسائل مال مفت دل بے رحم کی طرح اپنی تجوریوں میں بھرئے جا سکیں ۔فرض کر لیا جائے کہ ملکی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے کیا اس صورت میں بھی آئندہ دس سالوں کی منصوبہ بندی کے لئے زبانی اندازوں،، ذرائع آمدن،مسائل کا ادراک اورموجود وسائل کو بنیاد بنائے بغیر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

کیا ہمارے بے رحم حکمران اپنے گھروںاور کاروبار کا نظام کسی منصوبہ بندی کے بغیرایسے ہی چلاتے ہیں جیسے وطن عزیز کو چلا یا جارہا ہے۔کیا پاکستانی عوام ان کے آگے گروی رکھی ہوئی پروڈکٹ ہیں جسے حکمران جب چاہیں بیچ دیں یا ان کے جذبات سے کھیل لیں۔جن افراد کواعداد و شمار میں ظاہر ہی نہیں کیا جا رہا کیا وہ اس ملک میں جبری مشقت کرنے پر مجبور نہیں کر دئیے گئے ،،،کیا انہیں شہری حقوق سے محروم کر کے بڑی جیل میں غلام نہیں بنا لیا گیا۔

اٹھارہ برس قبل ملکی زراعت،پانی،معدنیات،چرند پرند،درخت،،ڈیم ،ہسپتال،تعلیمی ادارے،ذرائع نقل و حرکت،،کارخانے ،،فیکڑیاں،،ڈاکٹر ز،انجئینرز،وکلائ،،اساتذہ کی تعداد کتنی تھی آج کتنی ہے اور اگلے دس برسوں میں کتنی ضرورت پڑے گی اس کے لئے مردم شماری کے علاوہ کون سا ایساآلہ دین کا چراغ رگڑا جائے گا جو ان اعدا و شمار کا حساب رکھ سکے گا اور اس کی بنیاد پر حقیقی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔

حکمران اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مردم شماری ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے عوام ان کی ہر سال کی کارکردگی کو جانچ اور پرکھ سکتے ہیںاسی بنیاد پہ وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہو سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی صرف مردم شماری کا نام لے لیا جائے تو حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔بائیس کروڑ شہریوں کے منہ سے نوالہ چھیننے والے حکمران زبانی کلامی اٹھارہ کروڑ شہریوں کی ذمہ داری اٹھانے کوتوہر وقت کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں مگر مردم شماری کے حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر اٹھارہ کروڑ عوام کی ذمہ داریاں اٹھانے اور چار کروڑ افراد کو شہری حقوق دینے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔

موجودہ حکمرانوں نے رواں برس مارچ میں مردم شماری کرانے کے بلند و بانگ دعوے کئے مگر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کونسل کے چئیرمین وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور دیگر ممبران نے ملک میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر ایک مرتبہ پھر مردم شماری موخر کر نے کا اعلان کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ملک سے بجلی کے اندھیرے دور کرنے اور پانی کی فراوانی لانے کے لازوال منصوبے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو بھی مشترکہ مفادات کونسل ملکی مفاد ہی کے پیش نظر کئی مرتبہ موخر کر چکی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ قومی مفاد کے نام پرکالا باغ ڈیم اور مردم شماری کو موخر کر کے قوم کو بے وقوف بنانے والے حکمران غلامی کی جدید شکل کو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :