ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ہفتہ 28 مئی 2016

Ammar Masood

عمار مسعود

ایسا کیوں ہوتا ہے۔ جو جرم کرتے ہیں وہی دوسرے کو ملزم قرار دینے پر تل جاتے ہیں۔ جو ملزم ہوتے ہیں وہی چیخ چیخ کر کر دوسروں کو مجرم قرار دیتے ہیں۔ جن سے ہمدردی کے طلب گار ہوتے ہیں وہ سب سے سفاک کردار نکلتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی اپنا کام نہیں کرتا ۔ سب الزام کی سیاست میں جتے ہوئے ہیں۔ گھر، دفتر ، سماج اور سیاست ایک ہی رنگ میں رنگ گئی ہے۔

کوئی بھی شخص اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ جس کی نشاندہی کرو وہی دوسرے کے جرم کی اطلاع دیتا ہے۔ ایسے معلوم پڑتا ہے کہ اس ملک میں صرف دو طرح کے لوگ بستے ہیں ۔ ایک وہ ہیں جن پر الزام لگا ہے اور دوسرے وہ ہیں جن کے جرم کا ثبوت مل چکا ہے۔ ملزم اور مجرم کے اس معاشرے میں کبھی کبھی تو اپنے آپ شک ہونے لگتا ہے ۔ جانے ہم کون ہیں ملزم یا مجرم۔

(جاری ہے)


حکومت جلسوں میں بلند و بانگ دعوے ایسے کر رہی ہے جیسے انتخابات کی تیاری ہو رہی ہو۔ نئے پراجیکٹس کا ایسے اعلان ہو رہا ہے جیسے عوام کی ضرورتیں اچانک ان پر منکشف ہوئی ہوں۔پاناما لیکس سے پہلے آنکھیں اور دل جیسے بند تھے۔ اچانک ہی عوامی ہمدردی کو بخار چڑھا اور ہر مرض کے واحد علاج کی طرح جگہ جگہ سڑکوں کی تعمیر کا اعلان ہو رہا ہے۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی باک نہیں ہے کہ مواصلات کے شعبے میں کام ہوا ہے۔

لوڈ شیڈنگ بھی کم ہو گئی ہے۔ صنعتوں کو گیس بھی مل رہی ہے۔ ریلوے نے بھی اب بہتر دن دیکھنے شروع کر دئے ہیں۔ لیکن کیا ترقی انہی چار شعبوں تک موقوف ہے؟ کیا اس کا نام عوامی فلاح و بہبود ہے؟ کیا یہی جمہوریت کے ثمرات ہیں؟ کیا یہی روش پاکستان ہے؟ماننا پڑے گا کہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں کوئی کام نہیں ہوا۔ سکولوں کی حالت زار، اساتذہ کی تربیت اور تنخواہیں، تعلیم کا گرتا ہوا معیار، خصوصی بچوں کی تعلیم کا انصرام، سلیبسمیں میں بنیادی تبدیلیاں، خواتین کے کالجوں کا قیام ، نئی یونیورسٹیوں کا آغاز اور تعلیم کے شعبے سے متعلق سب کچھ سڑکوں کے ملبے تلے دب گیا ہے۔

وفاقی سطح پر صوبائی حکومتوں کی جو رہنمائی درکا ر تھی وہ بھی مفقود ہے۔ پنجاب تعلیم میں بہت پیچھے رہ گیا ہے مگر دیگر صوبے بھی تزلی کے اس کاروبار میں کم نہیں۔ صحت کا شعبہ بھی حکومت کی کارکردگی کا منہ چڑا رہا ہے۔ نہ نئے ہسپتال بنے ہیں، نہ ینگ ڈاکٹرز کی حالت زار پر کوئی کرم فرمائی ہوئی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی پنجاب اور وفاق میں جو حالت ہے وہ ناگفتہ بہہ ہے۔

مریض جس طرح شفا کے بہانے رسوا ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس سب کے باوجود جب وزیر اعظم صاحب خطاب کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے اس ملک کا ہر مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ پاکستان پل بھی میں روشن ہو گیا ہے۔ ہم ایسے سننے والے ایسے میں سوچتے ہیں اب کس سے اپنا دکھ کہیں ، اپنی رام کہانی سنائیں، اپنے غم کو کس سے بٹائیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ادھر کپتان ساحب تو اپنی ہی رو میں بہے جا رہے ہیں۔

ان کو صرف جلسے کی سیاست آتی ہے۔ لوگوں کو اشتعال دلانا آتا ہے۔ نفرت پھیلانی آتی ہے۔آگ لگانی آتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ صاحب خدا نخواستہ کبھی وزیر اعظم بن گئے تو احتجاجی جلسے کہاں کریں گے؟نفرت بھری تقریر میں کس کو الزام دیں گے۔؟احتجاج پر کن کو آمادہ کریں گے؟ گذشتہ تین سال نے یہ ثابت کر دیا کہ کپتان صاحب کو عوامی فلاح کا کوئی دماغ ہی نہیں ہے۔

وہ چھوٹے چھوٹے عوامی مسائل پر بات کرنے کے لیئے پیدا ہی نہیں ہوئے۔ انکی دانست میں انکا منصب
وزارت اعظمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ باقی جو کچھ ہیے وہ کھیل ہے تماشہ ہے ۔ ہیچ ہے ، کمتر ہے۔خیبر پختنخواہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی حکومت کی بدترین مثال ہے۔ کرپشن، جھگڑے، منشیات کے کاروبار، معدنی کانوں پر بھتے کی وصولی صوبائی حکومت کی ، ناہلی، چوہوں سے جنگ میں شکست، تعلیم کی بدحالی، صحت عامہ کی ابتری ، صاف پانی کی عدم فراہمی اپنے عروج پر ہے۔

لوگ مانتے نہیں تھے مگر جب کپتان کے ولولہ انگیز خطاب کے بعد جب بنوں میں عوام سے ترقی اور خوشحالی کے سوال کیئے گئے تو فلک شگاف ۔ نہیں۔ سن کر بھی کپتان نے حوصلہ نہ چھوڑا اور پھر اسی تیقن سے مخالفین کی نااہلی پر گرجنے برسنے لگے۔بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ بنوں کے تلخ تجربے کے بعد سوات میں یہ سوال پرویز خٹک نے جلسہ عام سے دوہرانے کی جسارت کی۔

جواب اس دفعہ بھی نفی میں تھا۔ صرف خوش قسمتی یہ ہوئی کہ یہ سوال جواب کیمرے میں محفوظ ہونے سے رہ گئے۔حکومت سے مایوس ہو کر لوگ اپوزیشن کا رخ کرتے ہیں۔لیکن جب اپوزیشن اپنی کارکردگی کا جواب دینے کے بجائے صرف حکومت پر الزام لگائے تو تو ہم جیسے لوگ ششدر رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔؟
ملک میں عدالتی نظام اپنے ابتر ترین مقام پر پہنچ چکا ہے۔

کچھ بھی نہیں بدلا ۔ وہی برس ہا برس رہنے والے مقدمے۔وہی سائیلین کی حالت زار ، وہی رشوت کا بازار، وہی اقربا پروری کی منڈی، وہی پولیس کے مصنوعی چالان ، وہی فیصلوں میں مقدم رہنے والے مصلحتیں۔ ہم ایسے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر ملک کا عدالتی نظام درست ہو جائے تو بہت سی چیزیں خود بخود درست ہو جائیں۔اگر انصاف کا دور دور دورہ ہو۔

مجرم کا سزا ملے۔ ملزم کی تفتیش ہو، حق دار کا حق ملے، میرٹ پر کام ہو ، جرم کی تادیب ہو تو مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ نیک اور صالح معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا کیا جائے کہ عزت ماب چیف جسٹس صاحب ہے دوسرے دن حکومت کو کرپشن اور ناہلی میں لوث ہونے کی دھمکی سنا دیتے ہیں۔ان کا دھیان عدالتوں میں ہونے والے کہرام کی طرف نہیں جاتا ۔ ہم جو ان سے انصاف چاہتے ہیں جب انہی سے بھی بہتری کے بجائے ایک نیا الزام سنتے ہیں تو سرف یہ سوچنے پر قادر ہوتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ملا منصور ، ولی محمد کے نام سے بلوچستان میں مارا گیا۔

دنیا کی مانی ہوئی خفیہ ایجینسیوں نے اس کی تصدیق کر دی۔ امریکی صدر نے پریس کانفرس میں اس ہلاکت کا اعلان کر دیا۔ ملا منصور کے گھر والوں نے اس ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ طالبان نے اپنا نیا امیر مقرر کرنے ساز باز شروع کر دی۔لیکن حکومت پاکستان اپنی ابھی تک اس واقعے کی تصدیق کرنے سے قاصر رہی۔ ولی محمد کی نعش کے پاس سے پاسپورٹ بھی ملا۔ شناختی کارڈ بھی پاکستانی دستیاب ہوا۔

کراچی کے فلیٹ کا پتہ بھی درست نکلا۔بیرون نلک دوروں کی بھی نشاندہی ہو گئی۔لیکن ہم ابھی تک اپنے سابقہ بیان ہر قائم ہیں۔ اب جن سے حفاظت کی توقع تھی وہی جب بیان دیتے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ ہمارا نصب العین ہے۔دہشت گردوں کو نیست و نابود کرنا ہے۔یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔تو ہم جیسے چپ سادھ کر یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ آکر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :