مقدمات

اتوار 10 جنوری 2016

Hussain Jan

حُسین جان

متحدہ قیادت عمران کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی: یہ بیان اُن دو ملزموں کا ہے جنہوں نے برطانیہ میں متحدہ کے لیڈر عمران فاروق کا قتل کیا ہے۔ ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے اپنے اقبالی بیان میں قتل کی سازش کا اعتراف کرلیا ہے۔ ایک ایسا ہی بیان فیصل آباد کے قاتل کا بھی آیا تھا جس میں اُس نے کہا تھا کہ قتل وزیر قانون جناب رانا ثناء اللہ کے کہنے پر کیا ہے۔

حکومت کی طرف سے متحدہ کے لیڈران کے خلاف مقدمہ تو درج کروا دیا گیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کیونکہ آج تک سیاستدانوں ،بیوروکریٹس، جرنیلوں اور ججوں کے خلاف جو بھی مقدمات بنے ہیں وہ ردی کی ٹوکری کی نظر ہوئے ہیں۔ آج تک کسی کو سزا نہیں ملی، بلکہ مصومیت سے کہ دیا جاتا ہے کہ ہمیں سیاسی victimiseکیا گیا ہے۔

(جاری ہے)


پاکستان کو نقصان پہچانے والوں نے ایڑی چھوٹی کا زور لگا رکھا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادیں۔

اس کے لیے ہمیں کسی باہر کے دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ہماری اپنی استینوں میں ہی بہت سے سانپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ NABجیسے ادارئے کئی بنائے گئے ان کے افسروں کو لاکھوں میں تنخوائیں بھی دی جاتی ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ، ایان علی جیسی عورت جو رنگے ہاتھو ں پکڑی جاتی ہے کا کوئی کچھ نہیں بگاڑسکا، ہماری پولیس کا یہ عالم ہے کہ ایک چھوٹا چھوڑ پکڑا جائے تو مار مار کر پتا نہیں کس کس چوری کو اس کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ، مگر جب کوئی تگڑی آسامی پکڑی جاتی ہے تو اُسے باقاعدہ وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں شائد ہی کوئی سیاستدان ایسا ہو جس پر مقدمات کی بھرمار نہ ہو مگر بدقسمتی سے آج تک عوام ان مجرموں کو سزا ملتے ہوئے نہیں دیکھ سکی اور نہ ہی کبھی دیکھ سکے گی۔ ڈاکٹر عاصم کو ہی لے لیں سننے میں آرہا ہے کہ موصوف نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جو کسی بھی وقت خودکشی کرسکتے ہیں ، لہذا عدالت انہیں رہا کرئے اور اُن کے لیے علاج معالجے کا بندوبست بھی کرئے،کہانی ختم۔

دوسری طرف بلاول بھٹو صاحب کے پروٹوکول کی وجہ سے ایک مصوم بسمہ بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتی اور اپنے خالق حقیقی سے جاملتی ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ بلاول صاحب سندھ کے شہزادے ہیں۔ لہذا وہ بچی کے والد سے ملے اُنہیں ایک عدد نوکری دی اور یہ جا وہ جا۔
ہم کئی دہائیوں سے سنتے اور آخباروں میں پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ زرداری صاحب پر کرپشن کے درجنوں مقدمات ہے۔

لیکن وہ تمام مقدموں میں باعزت بری ہو گئے اور اُن کے کئی مقدموں کے تو ریکارڈ تک بھی نہیں ملے۔ ملک کو کروڑوں روپے کے نقصان پہنچانے والے یہ سیاستدان اور ان جیسے دوسرئے قبیل کے لوگ ہمیشہ پاکستان کی عوام کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قوم کی اکثریت جاہل ہے جو ایک پلیٹ بریانی پر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتی ہے۔ زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا علان کرنے والے اُن کی گاڑی کو ڈرائیو کرکے خود دعوت میں لاتے ہیں۔


دوسری طرف دیکھیں تو میاں برادران پر بھی بہت سے کیس بنے، پیپر ملز،سٹیل ملز، منی لانڈرنگ ،قرضہ معافی وغیرہ کے ،کیا بنا اُن کا کچھ بھی نہیں بلکہ اُلٹا بڑئے میاں صاحب ہمارے وزیر آعظم بن گئے اور چھوٹے میاں صاحب بڑئے صوبے کے وزیر آعلیٰ بن گئے۔ اور تو اور ان کے بچے بھی ماشاء اللہ ہمارے لیڈر بننے کو تیار ہیں کہ سندھ تو بلاول کو دے دیا گیا۔

پنجاب کو مریم صاحبہ اور حمزہ صاحب میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ باقی دوصوبوں کا بھی کوئی والی وارث نہیں۔ ہاں کے پی کے میں تبدیلی کے اثار نظر آرہے ہیں کہ وہاں خاندانی سیاست تقریبا دم توڑ چکی ہے۔
نیب عدالت عالیہ کو 150کیسوں کی لسٹ بھی جمع کروا چکا ہے آج تک کسی کو کچھ نہیں پتا کہ ان مقدمات کا کیا بنا۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے یہ عوامی لیڈر کبھی عوام کا نہیں سوچتے۔

آج ہی ایک لیڈر نے پارلمینٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایران ،سعودی عرب تنازعے میں حکومتیموقف واضح بتایا جائے اگر حکومت اس موقف کو پبلک نہیں کرنا چاہتی تو ہمیں بند کمرہ میں بتا دے۔ یعنی عوام جائیں بھاڑ میں آپ ہمیں بتائیں ، آپ کس عوام کے نمائندہے ہو بھائی جو عوام کو ہی پیچھے دکھیل رہے ہو۔ تم لوگوں نے کبھی پاکستانی عوام کو انسان سمجھا ہو تو ان کی بھلائی کے لیے کام کرو، تمہیں تو صرف اپنی سیاست چمکانی اور دولت بڑھانی ہے۔

نندی پور پراجیکٹ کا کیا بنا کسی کو کچھ نہیں پتا، جتنی دیر میڈیا رولا ڈالتا رہا لوگوں کو یاد رہا اب میڈیا دوسرئے کاموں پر اُلجھ گیا ہے لہذا عوام کو کچھ نہیں پتا کہ نندی پور میں کیا کھیل کھیلے جارہے ہیں۔ سنا تھا قائد آعظم سولر پارک بھی لگایا گیا ہے جو پاکستانیوں کو بجلی فراہم کرئے گا۔ اُس کا بھی کچھ اتا پتا نہیں۔ لوڈشیڈنگ پر روز ایک نئی تاریخ دے دی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر کوئی کام ہوتے نظر نہیں آرہے۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پورئے پنجاب کا بجٹ لاہور شہر پر لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو میں دعوت دیتا ہوں کہ آکر لاہوریوں کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ تقریبا ایک کروڑ کی آبادی والے شہر کے لیے صرف چند ہسپتا ل ہیں جن میں صرف لاہوریے ہی نہیں بلکہ پورئے پنجاب سے لوگ علاج کروانے آتے ہیں۔ اکثر ہسپتالوں کی مشینیں خراب ہوتی ہیں۔ ایک ایک بیڈ پر دو دو تین تین مریض ڈال دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر آئے روز ہرٹالوں میں مشغول رہتے ہیں۔ سکولوں کا عالم یہ ہے کہ باتھ روم تک نہیں ، سردیوں میں کھڑیوں کے ششے نہیں اور گرمیوں میں چلانے کو پنکھے نہیں۔ دانش سکول ضرور بنے تھے پر وہ کیسے چل رہے ہیں کسی کو کچھ نہیں پتا، چند سکول کیا اتنے بڑئے صوبے کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ ہمارے لیڈران کو وہ کام کرنے کی عادت ہے جس میں ان کی واہ واہ ہو ، اور یہ وہی کام کرتے ہیں جو ان کو پسند ہوں عوامی ضروریات کو انہوں نے کبھی مدنظر نہیں رکھا۔

یہ فرعون بنے بیٹھے ہیں جن کو کسی کا کوئی ڈر خوف نہیں۔ کیونکہ اگر ان کے خلاف مقدمات بن بھی جائیں تو یہ سیاست کا سہارا لے کر صاف بچ نکلتے ہیں۔کیا کبھی کسی نے پوچھا کہ زرداری صاحب ملک سے باہر کیوں ہے، پانچ سال اقتدار کے مزئے لے کر وہ باہر عیاشی کر رہے ہیں۔ ان کے فرزند کبھی کبھار پاکستان کے دورئے پر آتے ہیں کمیض کے کھلے آستین لہرا کر بھٹو ثانی بننے کی ناکام کوشش کر کے پھر دوبئی یا لندن بھاگ جاتے ہیں۔

میاں صاحب کے بچے لندن میں کاروبار کرتے ہیں۔ کیاعوام میں اخلاقی جرت ہے کہ ان سے پوچھ سکے کہ کیا پاکستان ان کے بیٹوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں۔ ہیلی کاپٹروں کی سیر کرنے والے چھوٹے میاں صاحب جو کبھی کبھار جوبن میں آئیں تو میڈیا کو دیکھانے کے لیے کسی غریب کی موٹر سائیکل پر بھی بیٹھ جاتے ہیں سے کبھی کسی نے پوچھا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں آپ نے پنچاب کے لوگوں کا طرز زندگی کتنا بہتر کیا ہے۔

سڑکیں بننے سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر ہمارئے اور بھی بہت سے مسائل ہیں ان کو بھی حل کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان میں کرپشن اس طرح کی جارہی ہے جس طرح باپ کا مال ہو، سرکاری افسران سمیت سب کے سب کرپشن کرتے ہیں مگر بات وہی ہے کہ کسی کو آج تک سزا نہیں ملی اور مستقبل میں ملنے کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔ لہذا میں تو کہتا ہوں سیاستدان، جرنیلوں ، بیوروکریٹس اور ججوں پر جتنے بھی مقدمات ہیں ان کو ختم کردینا چاہیے ۔ کیونکہ خالی ڈھول بجانے کا کوئی فائد نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :