پی ٹی آئی پارٹی الیکشن

بدھ 10 فروری 2016

Hussain Jan

حُسین جان

ایک حالیہ سروئے کے مطابق 73فیصد پاکستانی کتب بینی سے پرہیز کرتے ہیں، جس طرح ہم کتاب سے دور بھاگتے ہیں اسی طرح سچ سے بھی کوسوں دور رہنے کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے۔ قائد آعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہو گا جس میں جمہوریت کا طوطی بولے گا۔ لوگ اپنی مرضی سے اپنے نمائندوں کو چنیں گئے، جو ان کی لیے آسانیاں پیدا کرنے کا سامان کریں گے۔

عوامی مسائل پر قانون سازی کریں گے جس میں عوامی مفاد کو مدنظر رکھا جائے گا۔ یعنی یہ قطہ ارض ایک فلاحی ریاست کہلائے گا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا قائد کے جاتے ہی چند خاندانون نے اس ملک کو اپنے شکنجے میں کس لیا اور اس کی ایسی حالات بنا دی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ سیاسی لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر عوامی مفاد کو قربان کردیا ۔

(جاری ہے)


اس ملک میں بہت سی قومی اور علاقائی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں جو وقتافوقتا اقتدار کا مزہ بھی لیتی رہتی ہیں۔

اور وقت آنے پر اپوزیشن کرنے کے بہانے اپنے ذاتی کام بھی کرواتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 90فیصد سیاسی جماعتیں اپنے خاندانوں تک ہی محدود ہیں۔ کسی کی بیٹی، بیٹا ،بھائی ، بیوی، بھتیجا، ماموں ،چاچووغیرہ مراعات کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں بھی دخل اندازی کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ مزئے کی بات ہے عوام نے بھی کبھی ایسی سیاسی جماعتوں کا احتساب کرنے کے بارئے میں نہیں سوچا۔

ہم تو گدھوں کا گوشت کھاکر بھی اُف تک نہیں کرتے۔
ایسے میں ایک سیاسی جماعت آتی ہے جو ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کو بحال کرنے کی سعی کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی دو جماعتی سانجے داری کو چیلنچ کرتی ہے۔ ملک میں سٹیٹس کو کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ فرینڈلی اپوزیشن کی کمر توڑنے کی پوری تیاری کی جاتی ہے۔ یہ جماعت ہے پاکستان تحریک انصاف ۔

جس نے ملک میں جمہوری نظام کی بحالی کے لیے انتھک محنت کی، عمران خان پارٹی کے چیرمین جو کہ حکومت وقت کو اکثر جمہوریت کی تعریف بتاتے رہتے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ عمران خان صرف باتوں کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ملک کو جمہوری بنیادوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پی ٹی آئی کے اپنے پارٹی الیکشن ہیں۔

پارٹی ورکروں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے راہنما اپنی مرضی سے منتخب کریں۔ سائیکل والے سے لیکر گاڑی والے تک سب کے سب اس انتخابی سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ورکروں نے ابھی سے اس کے لیے تیاری کر دی ہے۔پارٹی پوری کوشش کر رہی ہے کہ جو کوتاہیاں گزشتہ الیکشن میں ہوئی ہیں اُن کو دہرایا نہ جائے۔ اب یہ کارکنوں پر بھی ہے کو وہ بغیر کسی لالچ کے اپنے لیڈر منتخب کریں۔


دوسری سیاسی جماعتوں میں سے کسی بھی راہنما میں اتنی جرت نہیں کہ وہ پارٹی لیڈر شپ پر تنقید کرئے یا پارٹی کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔ لیکن تحریک انصاف میں ورکروں سے لیکر لیڈروں تک سب کو اختیار حاصل ہے کہ وہ پارٹی کے معاملات میں دخل اندازی کرسکتے ہیں اور اپنے مفید مشوروں سے نواز سکتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں جمہوری نظام جس میں حکومت عوامی ہو ، نہ کے دھونس دھاندلی سے بنی ہو۔

اب یہ پارٹی کارکنوں پر منصر ہے کہ وہ ایمانداری سے اس انتخابی عمل کا حصہ بنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پارٹی ممبر بنایں۔
ہمیں 67سالوں سے جمہوریت کا لالی پاپ دیا جا رہا ہے، لیکن جمہوریت کے نام پر چند خاندان پورئے ملک پر قابض ہیں۔ پہلی بات تو یہ ملک میں الیکشن ہوتے نہیں اگر ہوتے بھی ہیں تو اُس میں بھی پیسے کے زور پر ووٹوں کو خرید لیا جاتا ہے۔

کبھی مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو کبھی باہر سے کسی کو پکڑکر ہمارئے سروں پر بٹھا دیا جاتاہے۔ اگر ہم پاکستان کی ترقی جائزہ لیں تو ہم پر انکشا ف ہوتا ہے کہ ہم ترقی کرنے کی بجائے پستی کی طرف جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارئے کچھ جاہل قسم کے لوگ سڑکوں کو ہی ترقی کا نام دیتے ہیں اور حکومتی گڈ گورننس کی مثال دینے کے لیے سڑکوں کا حوالہ دیتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو عوام بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں، بجلی ،گیس،روزگار، صحت ،تعلیم جیسی سہولیات بھی میسر نہیں۔
ایسے میں اگر کوئی جماعت ملک کو حقیقی جموریت کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ جس پارٹی کا لیڈر خود کو ہر وقت احتساب کے لیے پیش کرئے اس پارٹی پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عمران کان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پارٹی الیکشن نہ کروائے بلکہ پسند کی بنیاد پر پارٹی عہدئے دے۔

لیکن اس مرد آہن نے ایسے کسی بھی مشورئے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے اگر پارٹی میں جمہوریت نہیں ہو گی تو ہم ملک میں کیسے جمہوریت نافذ کریں گے۔ اگر کسی کو تحریک انصاف میں عہدہ حاصل کرنا ہے تو اُسے الیکشن جیت کر آنا پڑئے گے۔
جمہوریت میں الیکشن ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔ اگر الیکشن شفاف نہ ہوں تو جمہوریت کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔

الیکشن کی چکی سے نکل کر ہی عام آدمی لیڈر بنتا ہے۔ لیکن ہمارئے ملک میں لیڈر پیدائشی پیدا ہوتے ہیں، بلاول بھٹو جو ہے تو زرداری لیکن اقتدار کی خاطر خود کو بھٹو کہلوانا پسند کرتے ہیں، یہ ایک پیدائشی لیڈر ہیں جن کو ٹھیک سے اردو بھی بولنی نہیں آتی لیکن پاکستان پر حکومت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے حمزہ شہباز شریف ہیں جن کی صرف یہ خصوصیت ہے کہ وزیر آعلیٰ صاحب کے بیٹے ہیں اور صوبے کے غیر سرکاری ڈپٹی وزیر آعلیٰ ہیں۔

بڑئے بڑئے پارٹی لیڈر ان کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے رہتے ہیں ، کیا کبھی کسی نے ان سے پوچھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کس بنا پر اتنے بڑئے عہدوں پر فائز ہیں۔ الیکشن میں کس بنا پر ان کو پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے۔ یقینا اتنی ہمت کسی میں نہیں ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ جس دن انہوں نے یہ سوال کیا ،میاں برادران کا عذاب ان پر ناذل ہو گا۔ اسی طرح قاف لیگ والوں نے بھی اپنے بیٹوں کو بہت پرموٹ کیا، سرکاری پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔


اگر ہمیں ملک میں حقیقی جمہوریت لانی ہے تو سب سے پہلے موجودہ لیڈروں کا احتساب کرنا ہو گا۔ خاندانی سیاست کا خاتمہ ہی جمہوریت کی بقاء کی زمانت ہے۔ کیا کسی دوسری جماعت میں ایسی جرت ہے کہ وہ پارٹی الیکشن کروا سکے، کیا کسی میں جرت ہے کہ بلاول کو للکار سکے کے منتخب ہو کر پارٹی عہدہ حاصل کرو، کارکنوں سے ووٹ لیک اُوپر آؤ۔ جب تک ہم اپنے رویوں میں جمہوریت لے کر نہیں آتے ملک میں جمہوریت کا راج کبھی نہیں ہوسکتا۔

ہمارئے سیاستدان ہمیشہ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ عوامی فلاح کے لیے ان کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ یہ یہاں حکومت کرتے ہیں اور جب حکومت میں نہیں ہوتے تو انگلینڈ میں پائے جاتے ہیں۔ لہذا عمران خان کا پارٹی الیکشن کروانا ایک احسن قدم ہے۔ اور پورے ملک کے عوام کو اس الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ تاکہ ہر آدمی ملکی سیاست میں اپنا حصہ ڈال سکے اسی میں عوام اور ملک کی بقاء ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :