خالق کی چاہت

منگل 31 مئی 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

”زندگی بھر میں یہی سنتا رہا کہ داڑھی رکھوسنت ہے۔ میں نے کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ وعدہ کرو تونبھاوٴ سنت ہے۔کسی سے بدسلوکی نہ کرو، سنت ہے۔خلق خدا کی خدمت کرو سنت ہے“۔مولوی کی تبلیغ سے ممتاز مفتی چکر ا گیا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ جس ہستی کا نام لے کر سنتوں کو عام کرنے کا ٹھیکہ چلایا جاتا ہے اس ہستی کے ذہن تک پہنچنے کی تو کوئی کوشش ہی نہیں کرتااور پھر اس سے بھی بڑھ کر ،کوئی خالق کائنات کی خوشی کو سمجھنے کی کوشش تو کرے۔


ماں کے پیٹ میں ایک غلیظ قطرے سے پرورش پانے والا کلکاریاں مارتا معصوم جب ایک منہ زور جوان بنتا ہے تو اپنے ہی مسکن زمین میں فساد پھیلاتا ہے لیکن جب ظالم بڑھاپا نکیل کھینچتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ وقت گزر چکا۔قطرے سے قبر تک کے سفر پر کبھی غور کیجئے،کوئی ایک لمحہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس میں خالق کائنات اپنی مخلوق کی خدمت میں مصروف نہیں۔

(جاری ہے)

مخلوق میں صرف انسان نہیں،تصور کیجئے چوہے ،بلی،سانپ ،مینڈک،کاکروچ،کیڑے مکوڑے، بچھواور اس طرح کے بے شمار جاندا ر ہیں جن کوہاتھ لگانا بھی انسان پسند نہیں کرتا،نفاست کے سبب اس کو گھن آتی ہے۔یقین کیجیٴے انسان جس پالن ہارکا محتاج ہے وہی خالق ان جانداروں کو بھی رزق عطا کرتا ہے۔ صرف اپنے نام لیواوٴں پر نہیں ،عنایات کی یہ بارش ان کے لئے بھی عام ہے جو اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں،مذہب بیزار ہیں لیکن خالق کائنات نے کبھی ان کا رزق نہیں روکا بلکہ بعض حالات میں تو وہ دوسروں سے اچھے ہیں۔

مولوی لیکن یہ بات آپ کو کبھی نہیں بتائے گا،وہ آپ کو داڑھی اور اسی طرح کی اور سنتوں میں ہی الجھائے گا ۔مولوی آپ کو ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو“ بھی پڑھائے گا اورساتھ ہی مخالف پر کفر کا فتوی بھی لگائے گا۔
کسے خبرتھی کہ لے کر چراغ مصطفوی ﷺ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
لیکن فقیر کی بارگاہ میں تمام انسانوں کو بلاتفریق مذہب و ملت خیر میسر ہے کیونکہ فقیرسر تاپا خیر ہے۔

محبت ہے،شفقت ہے،معافی ہے اورانعام ہے۔ اس لئے کہ فقیر ہی چراغ مصطفوی ﷺ کا حقیقی رکھوالا ہے۔ عرصہ ہوا خواجہ شمس الدین عظیمی کی تحریریں پڑھتے ہوئے ،جتنی بار بھی پڑھیں ہربار ایک نیا زاویہ سامنے آیا ،ہر مرتبہ ذہن کے کچھ اور دریچے وا ہوئے ۔حیرت ہے کہ سکول کی ایک کلاس تک نہ پڑھنے والا انسان ،کائنات کے ان خشک اور مشکل موضوعات کوکیسے اتنی آسانی سے بیان کر سکتا ہے۔

ایک ہی تحریر میں بائیولوجی،فزکس، کیمسٹری اور خلائی سائنس کے ایسے ایسے راز، کہ پڑھے لکھوں کو انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کردیں۔
”بچے کا نو ماہ تک ماں کے پیٹ میں بظاہر حیاتیاتی ضابطوں کے خلاف پرورش پانا، پیدا ہو کر دنیا میں آنا، غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے ماں کے سینے سے دودھ کا چشمہ ابل پڑنا، پیدائش سے موت تک حفاظت اور و سائل کا مہیا ہونا، یہ سب بندوں کی خدمت ہے جو اللہ کے قائم کردہ نظام کے تحت جاری و ساری ہے۔

اللہ کے نظام میں ہر آدم(انسان) کے ساتھ بیس ہزار فرشتے ہمہ وقت کام کرتے ہیں۔ یعنی ہر آدمی اللہ میاں کا کمپیوٹر ہے جس میں بیس ہزار چپس (CHIPS) ہیں۔ ایک چپ(CHIP) یا ایک کنکشن بھی کام نہ کرے تو پورے نظام میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔دنیا میں چھ ارب انسانوں کی آبادی ہے۔ کھربوں کی تعداد میں دوسری مخلوق آباد ہے۔ اسی طرح عالمین میں انسانی شمار سے باہر اور بھی دنیائیں آباد ہیں۔

ان دنیاؤں میں بھی انسان، جنات اور فرشتے رہتے ہیں۔ انواع و اقسام کی مخلوقات جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں،ان دنیاؤں میں بھی موجود ہیں۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں موجود ہر مخلوق، ہر شے انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ انسان اعتراف کرے یا نہ کرے۔ اس بات کو مانے یا نہ مانے لیکن جب کبھی انسان اس بات پر غور کرتا ہے کہ یہ کائنات کیا ہے، زمین کیا ہے۔

چاند، سورج، ستارے، کہکشانی نظام کیوں قائم کئے گئے ہیں تو اِنر سے دل و دماغ سے، تفکر سے ایک جواب ملتا ہے کہ یہ پوری کائنات انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہے ۔ پانی کی خصوصیات اور اس کی خدمت گزاری ہمارے سامنے ہے۔ گیس، ہوا، سورج، چاند، ستارے سبھی انسان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی انسان کو کسی بھی حالت میں ضرورت ہے۔ زمین اپنے بطن سے پیدا کر رہی ہے اور تسلسل کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہے۔

انسان جب اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ میں زمین، چاند، سورج کے لئے کیا کرتا ہوں اور خلاء کے اندر جو فضائیں ہیں ان کے لئے کیا کرتا ہوں۔ تو اس کو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ وہ کسی کے لئے کچھ نہیں کرتا بلکہ تمام چیزیں اس کی خدمت میں مصروف ہیں۔انسان کے اندرونی سسٹم میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ دل و دماغ اور پھیپھڑے اور تمام اعضاء خدمت میں مصروف ہیں۔

جب کہ انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ دل کی حرکت کیوں قائم ہے، کس بنیاد پر قائم ہے۔ رگوں میں خون دوڑنا، ایک توازن کے ساتھ حرارت کا برقرار رہنا، پیاس لگنا، پانی پینا، پانی کا سیراب کرنا۔ جسم کے اندر سے فاسد رطوبت اور فاسد مادوں کا اخراج، بھوک لگنا، کھانا کھانے کے لئے وسائل کی موجودگی، مسلسل وسائل کا فراہم ہونا، سب کچھ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔

اور انسان اس کائنات کے لئے کچھ بھی نہیں کرتا۔مثلاً وہ زمین کے اوپر کھیتی باڑی کرتا ہے تو زمین کو وہ کچھ نہیں دے رہا ہے۔ اس کھیتی باڑی سے اپنے لئے وسائل پیدا کر رہا ہے۔آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فصلیں کاشت کرنے سے زمین کو کوئی فائدہ پہنچا ہے۔ کائنات کی کسی بھی چیز پر کسی بھی طرح غور کریں ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔

نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے وسائل تخلیق کئے ہیں۔ بلکہ ہر چیز کو اس کے لئے محکوم بنا دیا۔
آسمانوں میں جو کچھ ہے اور زمیں میں جو کچھ ہے ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ (سورة لقمان-20)
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ انسان نے ایسا کون سا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ؟آخر انسان میں کیا خصوصیت ہے کہ ساری کائنات انسان کے تابع کر دی گئی اور انسان کو دنیا کے تابع نہیں کیا۔


قارئین بہت سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خالق کائنات انسان سے اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہتا ۔وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے کی مدد کریں ،ان کے کام آئیں،جیسا کہ وہ خود انسانوں کی اور تمام مخلوق کی خدمت کرتا ہے۔ تاکہ یہ زمین ،یہ کائنات امن و خوشحالی کا گھر ہو،زمین پر تفرقے کی بجائے وحدت، نفرت کی جگہ محبت اوردھوکے کی جگہ اعتمادکا بول بالا ہو یعنی انسان اپنے عمل سے ثابت کر دے کہ وہ بجا طور پر اللہ کا نائب اوراشرف المخلوقات ہے ۔
درد دل کے واسطے پید ا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کم نہ تھے کروبیاں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :