شکریہ راحیل شریف ،شکریہ نواز شریف

ہفتہ 26 نومبر 2016

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ جنر ل راحیل شریف کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے تو میر اجواب یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے ایک منتخب حکومت کی موجودگی میں جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ سیاسی کزنز کے مشترکہ دھرنے سمیت بہت سے مواقع ایسے تھے کہ جہاں بزعم خود سب سے بڑے اینکرز اور تجزیہ نگار بھی ”اب گئی کہ تب گئی “کا راپ الاپ رہے تھے لیکن موقع پرستوں کی کوئی امید بر نہ آئی ۔


مجھے یا دہے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں نام نہا دصحافیوں کا ایک ٹولہ روزانہ حکومت گرا کر سوتا تھا ،کسی کا طوطا مارشل لا ء کی فال نکالتا تھا اور کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت کی پیشین گوئی کر تا تھا لیکن جیسے تیسے ہی سہی آصف علی زرداری کی فراست کے سبب ایک منتخب پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت پوری کی ،بیچ میں اگر سوئس حکومت کو خط لکھنے والا معاملہ نہ آتا تو شائد یوسف رضا گیلانی ملکی تاریخ میں وہ پہلے وزیراعظم ہوتے جنہوں نے اپنی آئینی مد ت پوری کی لیکن افسوس ایسا ہو نہ سکا ۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود اتنا ضرور ہو اکہ جمہوریت کا پودا تھوڑا مضبوط ہوا اور سیاسی نظام کی گاڑی آگے بڑھی ،لیکن وہ جو کہتے ہیں نہ کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق نہیں سیکھتا اسی طرح ایک مخصوص ٹولہ گزشتہ تین برس کے دوران ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت میں ”سب اچھا نہیں ہے“ کا راگ الاپتا رہا ۔ قیامت خیز تبصرے کرنے والے ایک حضرت تو اس بات پر کافی برافروختہ نظر آئے کہ خیر پور ٹامیوالی میں فوجی مشقیں دیکھنے کے دوران وزیراعظم محمد نواز شریف نے سپہ سالار کو ان کا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی جسارت کیسے کی؟اور پھر اس کے بعد وزیراعظم نے انگوٹھا کیوں دکھایا؟اور اس بات سے انہوں نے نتیجہ یہ نکالا کہ وزیراعظم کو ان کی اس شدید گستاخی کی سزا بہت جلد مل کر رہے گی ۔

ہم بھی عجیب قوم ہیں ،سیاسی قیادت اگر اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے تو ہم فوج کی توہین کا ماتم کرتے ہیں لیکن اگر فوج کے ساتھ ملکی معاملات میں مشاورت کی جائے یا اس کا کوئی مطالبہ مان لیا جائے تو ہمیں یہ ہول پڑنے لگتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے ۔ معلوم نہیں کہ ہمارا مزاج ایسا کیوں بن گیا ہے کہ ہم کسی طور چیزوں کو حقائق کی آنکھ سے نہیں دیکھتے بلکہ ہر کوئی حکومت کے کسی بھی عمل کو اپنی سوچ اور خواہشات کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہے۔


میرے بہت سے دوست اس بات پر بضد تھے کہ جنرل راحیل شریف توسیع لے لیں گے لیکن میرا استدلا ل صرف اتنا تھا کہ وہ ایک سمجھدار آدمی اوربہترین پیشہ وارانہ فوجی صلاحیت رکھنے والے گھرانے کے وارث ہیں اس لئے وہ عزت اور وقار کے ساتھ گھر جانا پسند کریں گے ، کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ قبرستان ناگزیز ہستیوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ جنر ل راحیل شریف نے اپنی آئینی مدت نہ صرف عزت ووقار کے ساتھ پوری کی بلکہ ان کی سپہ سالاری کے دوران پاک فوج نے بے مثال کامیابیاں بھی سمیٹیں ۔

آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے ، اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل میں قابل ذکر کردار ،کراچی میں قیام امن ، مشرق و مغر ب میں کھلی اور پوشید ہ جارحیت کے بہترین جواب کے ساتھ ساتھ انہوں نے عام فوجیوں کی بہبود کے لئے کئی اور ایسے اقدامات بھی کئے جو آنے والے آرمی چیف کے لئے مثالی اور مشعل راہ ثابت ہو ں گے ۔ فوج میں کرپشن کے مجرموں کو وہ سزا تو نہ ملی جس کے وہ سزا وار تھے لیکن بہر حال ایک اور بہت مضبو ط اور مثبت روایت قائم ہوئی ، یہ روایت آگے چل کرفوج میں کسی بھی قسم کی کرپشن کا سوچنے والوں کے لئے باعث عبر ت ہوگی ۔


اب چونکہ سپہ سالار کے عہدے کی مدت میں توسیع کی بحث دم توڑ چکی ہے تو نئے آرمی چیف کے بارے میں قیاس آرائیاں عروج پر ہیں ۔ اس بارے بھی خاکسار کی رائے یہ ہے کہ جو عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم نے اپنے ماضی سے یا ماضی میں کئے گئے فیصلوں سے سبق نہیں سیکھا وہ غلطی پر ہیں ، جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف بنانابھی ان کے حسن انتخاب کی دلیل ہے ۔

کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف کی دوڑ میں چار جرنیل شامل ہیں لیکن میر اخیال یہ ہے کہ وزیراعظم نئے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹا ف کمیٹی کے لئے سنیارٹی میں پہلے نمبر پر آنے والے جنرل زبیر حیات کو ترجیح دیں گے جبکہ سنیارٹی میں دوسرے نمبرپر آنے والے کورکمانڈر ملتان جنر ل اشفاق ندیم ایک اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں ۔ نئے سپہ سالار کی تقرری اگرسنیارٹی کم فٹنس کے اصول کے مطابق ہوتی ہے تو یہ بہت سے مسائل کو جنم لینے کا موقع ہی فراہم نہیں کرے گی ۔

مثلاََ سینئر ترین جنرل کی بطور چئیرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف کے طور پر تقرری سے سیاسی یا فوجی کسی بھی سطح پر کسی بھی شخصیت یا ادارے کو کوئی اعتراض اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔ دوسری طر ف کسی جونیئر جرنیل کی ان عہدوں پر تقرری سے نہ صرف خود فوج میں اعلیٰ سطح پر بے چینی جنم لیتی ہے بلکہ سیاسی حلقے بھی اس پر اعتراض کرتے ہیں جس سے قومی وحدت کو نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ۔

ماضی کے مثالیں ہمارے سامنے ہیں کو جونیئر ز کو سینئرزکے سر پر بٹھانے سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں اور میاں نواز شریف اس اہم ترین موقع پر کسی خرابی کے متحمل ہو نہیں سکتے ۔ سو میرا تجزیہ اور خواہش تو یہی ہے کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر کوئی خرابی جنم نہ لے ،میاں نواز شریف کو اگر اللہ تعالیٰ نے یہ عزت بخشی ہے کہ وہ چھٹی بار آرمی چیف کی تقرری کرنے جار ہے ہیں تو وہ میرٹ پر فیصلہ کریں جو ملک و قوم کے لیے بہترین ثابت ہو اور قوم شکریہ راحیل شریف کے بعد شکریہ نواز شریف بھی کہہ سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :