سیکولرزم کی بحث، چند سوالات !۔قسط نمبر2

پیر 25 اپریل 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

جہاں تک ہماری بات ہے تو ہمارا نقطہ نظر کل بھی واضح تھااور آج بھی واضح ہے۔ الحمد اللہ ہم مسلمان ہیں اورہمیں خود کو مسلمان کہلوانے پر فخر ہے ۔ ہمیں مذہب اسلام کو اپنانے اور اسے اپنی نجی زندگی اور ریاستی سطح پر اپنانے میں کوئی عارہے نہ شرمندگی ۔ہم اللہ کو ایک مانتے ہیں وہ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے ،وہ ہی عزتوں اور ذلتوں کامالک ہے ،وہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل ورسواکر دے۔

وہ واحد اور اکیلاہے اس کا کوئی شریک نھیں ۔اس نے اپنے پیغمبر پر قرآن جیسی لازوال کتاب نازل فرمائی۔قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ایک محکم کتاب ہے جس کاایک ایک لفظ سچااور محفوظ ہے۔قرآنی احکامات قیامت تک کیلے قابل عمل ہیں اور مسلمانوں کیلے ہدایت و روشنی کاواضح پیغام ہیں۔

(جاری ہے)

ہم محمد رسول اللہﷺ کو اللہ کا آخر رسول مانتے ہیں ،رسول اللہ کی تمام احادیث مبارکہ سچی اور ہماری لےئے ہدایت کا ذریعہ ہیں ،آپ کی احادیث مبارکہ بھی قیامت تک کیلے قابل عمل ہیں ۔

آپ کی شریعت کا ایک ایک حکم مصلحتوں سے بھر پور اور قیامت تک کے لیئے قابل عمل ہے ۔آپ انسانوں کو مذہب سے ملانے اور اپنی زندگی کومذہب کے تحت گزارنے کا سبق دینے آئے۔ آپ نے اپنی زندگی میں مدینہ کی ریاست قائم کر کے ہمیں بتا دیا کہ مذہب اور ریاست جدا جدا نھیں بلکہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ہم محمد رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام کو بھی سچا اور امانتدار مانتے ہیں ۔

ہم مسلمان ہیں ،ہمارا تشخص واضح ہے ۔ہم مذہب کو انسانی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست مذہب کے تابع ہو کر ہی ایک فلاحی ریاست بن سکتی ہے ۔ ہم صحابہ کرام اور خلفاء راشدین کے طرزعمل کوبھی ما نتے ہیں جنہوں نے خلافت راشدہ کے دور میں ریاست کومذہب کے تابع کر کے نہ صرف چلایابلکہ آدھی دنیا پرحکو مت بھی کی اور یہ بات سچ ثابت کر دی کہ مذہب ہی ریاست کی اصل بنیاد ہے۔

اور مذہب کی بنیاد پر ہی کسی ریاست کو منظم ، مضبوط اور مستحکم بنایاجا سکتا ہے۔ہم مسلمان ہیں اور اس بات کا کھلے بندو ں کا اعتراف کرتے ہیں۔ہم قرآن اور سنت کے احکامات پر نا صرف عمل کر تے ہیں بلکہ ہمیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اسی میں ہماری دنیوی اور اخروی کامیابی ۔ہمیں اس بات کابھی پختہ یقین ہے کہ یہ دین قیا مت تک رہنے والادین ہے اور یہ کبھی مٹ نہیں سکتا،اسے مٹانے والے خود مٹ جائیں گے لیکن یہ کبھی نہیں مٹے گا۔

اور ہمیں قرآن کی اس آیت پر پورا یقین ہے کہ اللہ نے یہ دین اپنے آخری پیغمبر پر مکمل کر دیاتھا اوراب قیامت تک کوئی دین نہیںآ ئے گا۔اوردین اسلام زندگی کے ہر شعبے کے لیئے قابل عمل ہے۔یہ آج سو چودہ سو سال پہلے بھی قابل عمل تھا،یہ آج بھی قابل عمل ہے اور یہ قیامت تک قابل عمل رہے گا۔ہم آج بھی مذہب کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں کہ مذہب ریاست کا سربرہ ہے اور مذہب کے ماتحت رہ کر ہی کوئی ریاست فلاحی ریاست بن سکتی ہے۔

اور ہمارا موقف ہے کہ زمانہ خواہ کتنی بھی ترقی کرلے و ہ اپنی ہدایت و فلاح اور ترقی کے لئے مذہب کا ضرورت مند رہے گا۔یہ ہیں ہم اور یہ ہیں ہمارے عقائدونظریات۔
وطن کے اعتبار سے ہم پاکستانی ہیں۔ ہم گزشتہ 68سالوں سے اس وطن میں رہ رہے ہیں۔ہمارے آباوٴاجداد نے یہ وطن بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیاتھا۔اس وطن کے وجود میں آنے کا ایک خاص مقصد تھااور یہ اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر قائم ہونے والاد نیا کاواحد ملک تھا۔

ہم اس ملک سے دل و جان سے پیار کرتے ہیں۔اس وطن کے لیئے ہماری جان بھی قربان ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح اور مفکر اسلام علامہ محمداقبال نے اس وطن کے حصول کے لیئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔اقبال اورقا ئد اعظم اسے ایک ایسی ریا ست دیکھنا چاہتے تھے جہاں مسلمان اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال سکیں۔جہاں کا معاشی اور اقصادی نظام اسلامی اصولوں کی رہنمائی میں تشکیل پایا ہو۔

اس ملک کی بنیاد اسلامی نظرحیات ہے۔اسلام سے اسے ازلی و ابدی نسبت ہے اوراسلام ہی اس ملک کا سامان بقا ہے ۔اس ملک کا ایک ایک فرد حجازمقدس کی پاک سرزمین سے جڑا ہے۔اس وطن کے باسیوں کو حجاز مقدس کا ایک ایک زرہ عزیز ہے اور یہ آج بھی حجاز مقد س کی حفاظت کے لیئے اپنی جان قربان کرنے کے لیئے تیار ہیں۔
اگرچہ ہم اپنے وطن پاکستان میں رہتے ہیں لیکن ہم اس وطن میں رہتے ہوئے خود کو کوئی الگ قوم یا الگ گروہ تصور نہیں کرتے ہیں جس کا باقی مسلم دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔

پہلے نمبر پر ہم مسلمان ہیں اور پھر پاکستانی ۔اسلام سے منسوب ہر شخص ہمارا بھائی ہے اور حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں ہم اسے اپنا دینی بھائی سمجھتے ہیں۔ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا مسلمان ہمارا بھائی ہے اور ہم اس کی خوشی غمی میں شریک ہونے کے پابند ہیں۔اگر اس کو کوئی دکھ تکلیف پہنچے تو ہم اس کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

تاریخی پس منظرکے حوالے سے ہم پندر ھویں صدی ہجری اور اکسیویں صدی عیسوی میں جی رہے ہیں۔ایک ایسا دور جس میں انسان نے کائنات کی وسعتوں سے کھیلنا شروع کر دیا ہے۔جہاں انسان چاند سے بھی آگے مریخ تک جا چکا ہے۔دنیا ٹچ سسٹم پر منتقل ہو گئی ہے ،انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ہم ان تمام حقیقتوں سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ ان سے نمٹنے کی پوری تیاری کر رہے ہیں۔

ہمیں احساس ہے کہ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسان نے ایٹم کو ریزہ ریزہ کردیاہے۔کائنات کی وسعتیں انسانی تجسس کی جولا نگاہ بن گئی ہیں اورانسان نے کائنات کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے کائنات کی نبض سے چھیڑ خانی شروع کردی۔
اسی طرح ہم اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ اس وقت ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں فتنوں کی بھرمارہے ۔

نئے نئے فتنے جنم لے رہے ہیں۔ہر اینٹ کے نیچے سے فتنے نکل رہے ہیں اورہر شجر کی جڑ فتنوں کی آما جگاہ ہے۔جہاں متعدد نظریات اور مختلف فلسفہائے زندگی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔نئے نئے نظریات اورقدیم و جدید کے امتزاج سامنے آ رہے ہیں۔ہر روز ایک فتنہ جنم لیتاہے۔فتنوں کی اس بھیڑ میں ہمیں احساس ہے کہ ہم کہا ں کھڑے ہیں اور ہمارا مواقف کیا ہے۔ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ دین اسلام پر نکتہ چینیاں کرنے والے ہر دور میں رہے ہیں۔

الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اللہ اوراس کے رسول کی بات کو دل وجان سے تسلیم کریں۔قرآن کی سورة الاحزاب کی آیت
نمبر 36 کی روشنی میں ہم اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کا سوچ بھی نہیں سکتے اور ہم جانتے ہیں کہ اسلام یہ تقاضاکرتاہے کہ ہم اس کے سامنے اپنا سراس طرح جھکا دیں کہ ہماری اپنی کوئی مرضی نہ رہے۔اللہ اور اس کے رسول کا جو حکم ہمیں ملے ہم بلا سوچے سمجھے امنا وصدقنا کہہ دیں۔ہم ہر حکم کو ایمان سمجھ کر قبول کر لیں ۔اوراگر اللہ اور اس کارسول ہمیں کسی بات سے منع کریں تو ہم اس سے باز آجائیں۔یہی ایمان کا تقا ضہ ہے اور مذہب ہمیں اسی چیز کی دعوت دیتاہے۔(جاری ہے )۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :