تھینک یو میاں صاحب!

پیر 5 ستمبر 2016

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

چارلس ڈیگال کوجدید سیاست کاباوا آدم کہا جاتا ہے ۔چارلس کو سیاست میں وہی حیثیت حاصل ہے جو ارسطو اور افلا طون کو فلسفے میں۔ آپ چارلس ڈیگال کو پڑھے بغیرسیاسیات کی ڈگری نہیں لے سکتے ۔چارلس فرانس کا رہنے والاتھا اور اسے دنیا کی موئثر ترین شخصیات میں شامل ہو نے کا اعزاز حا صل ہے۔کچھ عرصہ پہلے فرانس کی حکو مت نے فرانس کی سو بہترین شخصیات کا انتخاب کیا تھا اور اس لسٹ میں چارلس ڈیگال کا نام دوسرے نمبر پر تھا ۔

چارلس ایک جرنیل تھا ،اس نے دوسری جنگ عظیم میں فرانسیسی فوج کی قیادت کی تھی اور اس جنگ میں اس نے فرانس کو فتح سے ہمکنار کر وایا تھا ،دوسری جنگ عظیم ختم ہو ئی ،عالمی طاقتوں کا جوش کڑی کے ابال کی طرح بیٹھ گیا ،لاکھوں افراد مارے گئے اور کروڑوں زخمی ہوئے ،بڑے بڑے نامور لیڈر بازی ہار گئے ، ہٹلر نے خودکشی کر لی لیکن چارلس کی شہرت کا ستارہ گردش میں رہاچناچہ اس نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا، عوام نے اس کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد چارلس نے فرانس کو دنیا کی چوتھی بڑی طاقت بنا دیا ۔

(جاری ہے)

برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل چارلس ڈیگال سے بڑا متائثر تھا ،جنگ عظیم ختم ہوئی تو چرچل نے اپنی الیکشن کمپین چلانے کے لیئے چارلس ڈیگال کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ،چرچل نے ڈیگال سے پو چھا ”سر کیا آپ مجھے ایک کامیاب سیاستدان بننے کاگر بتا سکتے ہیں “چارلس ڈیگال نے پلکیں جھپکیں اور گہری سانس لے کر بولا ”جب تک تم اپنی چوبیس گھنٹے کی روٹین کو عبادت سمجھ کر نہیں گزاروگے تب تک تم کامیاب سیاست دان نہیں بن سکتے “”سر میں سمجھا نہیں “چرچل نے حیرانی سے پوچھا ،چارلس ڈیگال نے کچھ دیر سوچا اور ہوامیں نظریں گھماتے ہوئے بولا”جب تک تم سیاست کو عبادت نہیں سمجھتے تب تک تم ایک کامیاب سیاست دان نہیں بن سکتے“ چرچل کو بات سمجھ آ چکی تھی لیکن اس نے مزید تفصیل جاننے کے لیئے وضاحت چاہی ”سر سیاست سمجھوتوں کا کھیل ہو تی ہے اور جب تک ہم یہ کھیل نا کھیلیں تب تک ہم سیاست نہیں کر سکتے“ڈیگال پو ری سنجیدگی سے بولا ” جو لیڈر سیاست کو سمجھوتوں کا کھیل سمجھتے ہیں ایک دن وہ خود اس کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں اورتاریخ انہیں بزدل ،مکار اور منافق ڈکلیر کر دیتی ہے “لیکن سر سیاست میں جب تک ہم سمجھوتوں کی گاڑی پر نا بیٹھیں ہم اقتدار کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے “چارلس اپنی جگہ سے اٹھا ،آسمان کی طرف دیکھ کرمسکرایااور اعتماد سے بھرپور لہجے میں بولا ”یہی وہ نکتہ ہے جہاں پہنچ کر دنیا کے تمام سیاست دان غلطی کر جاتے ہیں اور پھر ان کے اقتدار کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے غروب ہو جاتا ہے ،اگر تم کامیاب سیاست دان بننا چاہتے ہو تو یاد رکھوسیاست کی اصل منزل اقتدار نہیں عوام کی خدمت ہے ،اگر تم عوام کی خدمت کو اقتدار پر ترجیح دو گے تو اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح تمہاری جھولی میں آ گرے گا اور اور اگر تم نے خدمت کی بجائے اقتدار کی گاڑی کے پیچھے دوڑ لگا دی تو گاڑی بھی چھوٹ جائے گی اور واپسی کے تمام راستے بھی بند ہو جائیں گے “۔


اقتدار پے پیچھے بھاگنے والے سیاست دانوں کی ایک قسم پاکستان میں بھی پائی جاتی ہے جن کی قیادت آج کل میاں نوازشریف کر رہے ہیں ،ویسے توآج پاکستان میں کوئی بھی ایسا لیڈرموجود نہیں جو اقتدار کی بجائے عوام کی خدمت پر یقین رکھتا ہے لیکن میاں صاحب تیسری بار اقتدار میں آ کر بھی سیاست کو نہیں سمجھ سکے۔میرا خیال ہے انہیں ا ب اس ملک پر رحم کرنا چاہئے اور سیاست سے ریٹائر منٹ لے لینی چاہئے ،اٹھارہ کروڑ عوام والے ملک کو چلاناان کے بس کی بات نہیں اور نہ پاکستان کو ایسے بڈھے لیڈروں کی ضرورت ہے۔

میں گزشتہ کافی عرصے سے میاں صاحب کی باڈی لینگوئج کوآبزرو کر رہاہوں اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں میاں صاحب جس طرح اٹھارہ کروڑ والے ملک کو چلانا چاہتے ہیں اس روٹین کے ساتھ اگر وہ اپنے گھر کو بھی چلا لیں تو بڑی بات ہو گی۔آپ میاں صاحب کی میٹنگز دیکھیں اور ان میں میاں صاحب کی باڈی لینگوئج کو آبزرو کریں آپ کو نظر آئے گا میاں صاحب انتہائی بیزار بیٹھے ہیں جیسے کسی نے زبردستی لا کر بٹھا دیا ہو ،چہرے پر سستی اور کاہلی کے اثرات جیسے ابھی بیٹھے بیٹھے سو جائیں گے۔

میاں صاحب کی یہ باڈی لینگوئج ظاہر کرتی ہے کہ وہ مکمل طور پر ایک ناکام لیڈر اور تھرڈ کلاس سیاستدان ہیں۔میاں صاحب آپ اس بار تیسری دفعہ اقتدار کی جنت میں داخل ہوئے ہیں ،اب آپ کو اپنی اس روٹین ،اپنی باڈی لینگوئج اور اور اپنے کام کرنے کی ترتیب کو بدلنا ہو گا،آپ اب بھی صبح دس بجے آفس جاتے ہیں اور شام پانچ بجے چھٹی کر لیتے ہیں ،آپ اب بھی ہفتے کے دو دن رائیونڈ گزارتے ہیں ،آپ بیرونی دورے بھی مس نہیں کر تے او ر آپ کسی بھی قومی چھٹی کو بھرپور انجوئے کرتے ہیں ،لیکن میاں صاحب اب آپ کو اپنی یہ سب چیزیں اور اپنی یہ روٹین بدلنی ہوگی ،تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں کو چوبیس گھنٹے کا م کرنا پڑتا ہے ،آپ کو صبح آٹھ بجے آفس آ جانا چاہئے اور آپ کو چاہیئے کہ آپ رات 12بجے چھٹی کر کے جائیں ،آپ اپنے بیرونی دورے مختصر کریں ،قومی چھٹی کے دن بھی کام کریں اور اپنی کابینہ کو بھی اس روٹین کا پابند بنائیں ۔

میاں صاحب آپ کو اقتدار سنبھالے ہوئے تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ کی باڈی لینگوئج ظاہر کرتی ہے کہ آپ ایک ناکام سیاستدان اور ایک ناکام حکمران ثابت ہوئے ہیں ۔اگر اب بھی آپ نے خود کو نہ بدلا ،آپ متحرک نہ ہوئے ،آپ نے کام کے دورانیے کو نہ بڑھایااور آپ کی باڈی لینگوئج ایسی ہی رہی تو پھر آئندہ زندگی کے لئے آپ رفیق تارڑ صاحب سے رابطہ کر لیجئے وہ آپ کو اچھا مشورہ دیں گے ۔


لیڈر اور حکمران وہ ہو تا ہے جو زمانے کا نبض شناس ہو ،جس نے تاریخ پڑھی ہو ،جو قوموں کے عروج و زوال سے واقف ہو ،جو لکھی ہو ئی تقریریں نہیں فی البدیہ بولنے کی استعداد رکھتا ہو ،جس کی زندگی عوام میں گزری ہو ،جومعاشرے کے پسے ہو ئے طبقات کے مسائل سے بخوبی آگا ہ ہو ،جس کا اوڑھنا اور بچھونا عوام کے ساتھ ہو ،جو بلا خوف و خطر عوام میں گھل مل جائے ،جو سال میں ایک بار نہیں ہر لمحہ عوام سے رابطے میں ہو ،جس میں مستقل مزاجی کو ٹ کوٹ کر بھری ہو ،جو بلا کا ذہین اورغضب کا حاضر جواب ہو ،جو عوام اور سوسائٹی کی نفسیات کو گہرا ئی سے جانتا ہو ،جو نہ سنائی دینے والی آوازوں کو بھی سن لے ،جو نہ محسوس کیے جانے والے درد کو بھی محسوس کر لے ،جس کے پاس ہرن جیسا نرم دل اور پہاڑوں سے ٹکرانے جیسا حوصلہ ہو ،جس کی ڈکشنری میں ”ناممکن “جیسا لفظ سرے سے غائب ہو ،جس کا کردار انگلیاں اٹھنے سے پاک ہو اورجو تقدیر اور تدبیر دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا عادی ہو ۔

میاں صاحب کی سیاست کے تین سال گزر جانے کے بعد مجھے احساس ہو نے لگا ہے کہ اس ملک کی تقدیر بدلنے میں ابھی کا فی وقت لگے گا ۔کاش میاں نواز شریف سیاست کے گندے تالاب میں مزید ڈبکیاں لگا نے کی بجائے سیاست سے ریٹائر منٹ لے لیں اور اپنی بقیہ زندگی میں پاکستان میں عالمی معیار کی کو ئی یو نیورسٹی قائم کر یں ،انٹر نیشنل معیار کا کو ئی ہسپتال بنائیں اور اپنی بقیہ زندگی ایدھی یا بل گیٹس بن کر غریب عوام کے لیے کو ئی فلا حی منصوبہ شروع کریں تو شاید یہ اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں بہتر ہو گا۔آپ نے اب تک عوام کی جو خدمت کی ہے عوام آپ کے بے حدمشکور ہیں لیکن آئندہ کے لیے آپ سیاست سے ریٹائر منٹ لے لیں یہ آپ کا اس ملک اور اٹھارہ کروڑ عوام پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :