وقار وشرف نسوانیت کی علامت ”حجاب“

ہفتہ 5 ستمبر 2015

Nabeera Andleeb Naimi

نبیرہ عندلیب نعیمی ۔ رکن پنجاب اسمبلی

جس دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو اس کائنات میں مبعوث فرمایا وہ زمانہ”زمانہ جاہلیت“ کے نام سے موسوم ہے۔ سرور کائنات ﷺ نے دین حق کے اعلان کے ساتھ اس ہلاک کردینے والی جہالت میں نور ایمان کی ایک شمع اسلام کی صورت میں روشن فرمائی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی روشنی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس روشنی سے انسان کو وہ عقیدہ اور شعورعطا ہوا جو سراسر مکارم اخلاق اور فضائل ومحاسن کا مجموعہ ہے۔

اسلام ایک امن پسند دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام کے نور سے ہی انسان اپنی بشریت کے تقاضوں کو پورا کرسکتا ہے۔ اسلام نے زمانہ جاہلیت کے رسم ورواج اور اخلاق وعادات جو فتنہ وفساد سے لبریز تھے ،یکسر بدل کر ایک مہذب معاشرے اور تہذیب کی داغ بیل ڈالی جس سے عام انسان کی زندگی میں امن،چین اور سکون ہی سکون درآیا۔

(جاری ہے)

جہاں اسلام کی شمع سے بہت سی جہالتوں کا خاتمہ ہوا وہاں عورت کو عزت وتکریم کے اعلیٰ مراتب سے ہمکنار کیا۔

عورت جو انسانی معاشرے میں انتہائی پستی کے مقام پر گرچکی تھی اسلام نے اسے ماں،بہن،بیوی اور بیٹی جیسے عظیم رشتوں کی شکل میں جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔عالم انسانیت میں آج تک کوئی دین یا تہذیب ایسی نہیں دیکھی گئی جس نے عورت کے معاملہ میں اتنی دلچسپی لی اور اہتمام کیا ہو جتنا کہ دین اسلام نے کیا ہے۔ اسلام نے عورت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ۔

اسلام مسلمان عورت کو بلند مقام عطا کرتا ہے اور ہر مسلمان کی زندگی میں اس کاموٴثر کردار ہے۔ صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلی درسگاہ ہے۔ اور اگر پہلی درسگاہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی احکامات کی پابند ہو تو یقیناً اس میں پرورش پانے والا بچہ صالح اور نیک معاشرے کو تشکیل دے سکتا ہے۔ جہاں اسلام نے عورت کے لیے تعلیم، قانونی معاملات، وراثت میں حصہ، شادی اور خلع ،گواہی اورمعاشی معاملات سمیت تمام حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا اور مکمل آزادی دی وہیں یہ اہتمام بھی کیا کہ اس کا تقدس برقرار رہے ۔

اسے بازار حسن کی زینت بننے سے روکا جائے تاکہ وہ عزت اور وقار برقرار رہے جو معاشرے میں اسے اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ اس کے لیے قرآن میں جو مختلف احکام نازل کئے گئے ان میں سے ایک حجاب کا حکم بھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کی خواتین زیور حیاء سے مزین اور اس کے مرد شمشیر غیرت سے مسلح ہوں وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوسکتی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مرد بے غیرت اور عورتیں بے حیاء ہوجائیں تو پھر شکست وذلت اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔

اور معاشرتی نظام ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ مردوں میں غیرت کو زندہ رکھنے اور عورتوں کی حیاء کو باقی رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور عورتوں کو پردے کا حکم دیا۔ اسلام کی یہ تدبیر اس لیے بھی ہے کہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچایا جائے۔ اور مرد وعورت کے اندر پائے جانے والے فطری میلانات کو اپنی جگہ باقی رکھتے ہوئے انہیں فطری انداز کے مطابق محفوظ رکھا جائے ۔

اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت کا تمام تر حسن وجمال، اس کی تمام ذیب وزینت اور آرائش وسنگھار میں اس کے ساتھ صرف اس کا شوہر شریک ہو کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عورت اسلام کے احکامات کو بروئے کار لاتے ہوئے حجاب کی پابندی کرے۔آج کے مادر پدر آزاد مفکر ، دانشور اور ان کی قیادتیں بے پردگی کو عام کرنے اور عورتوں سے حیاء کا زیور چھیننے کے لیے ترقی کے نام پر عورت کو چار دیواری سے باہر لے آئے اور عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا گیا۔

مردوں کی سربراہی کو ختم کرکے عورتوں کے حقوق کے علمبردار بن کر عورت کو نام نہاد آزاد بنا دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ جب پردے کی حدودوقیود توڑ دی گئیں تو عورتیں ہوس کا شکار ہونے لگیں۔ کم سن لڑکیاں نام نہاد آزاد ی کے نام پر عصمت فروشی کے منظم اور بین الاقوامی کاروبار کا حصہ بننے لگی اور انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ چند دن کی خوشی کے لیے کس سمت جارہی ہیں۔

بن بیاہی ماوٴں میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اور اسے معاشرتی آزادی کا نام دے دیا گیا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں عورت بہت مظلوم اور معاشرتی وسماجی عزت واحترام سے محروم تھی۔ یونانی،رومی،ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کم تر درجہ دیا جاتا تھا۔

لیکن اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کا علم بلند کیا اور عورت کی عظمت ،احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور پیش کیا۔دنیا اس بات کی بھی گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن وحدیث کے قوانین واصول کے پابند رہے دنیا میں بلند رہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے خواتین کے لیے جو معاشرتی راستہ بتلایا وہ حیاء اور حجاب کا راستہ تھا۔ بے حیائی وبے حجابی تو دراصل شیطان کی چال تھی اور ہے بھی۔

جس میں مبتلا ہوکر مسلمانوں کی معاشرتی زندگی گھمبیر اور خاندان کا شیرازہ بکھرتا چلا جا رہا ہے۔ حضرت اقبال نے بنت حوا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔کہ اے بنت حوا تم اپنے آپ کو بتول (حضرت فاطمہ) کی طرح بنالو اور اس زمانے کی نظروں سے چھپ جاوٴ کہ تمہاری گود میں بھی ایک حسین پرورش پاسکے۔لیکن معاشرے کی ستم ظرفی یہ ہے کہ اگر ایک کیتھولک راہبہ اپنے آپ کو لباس میں اوڑھ لے ، حجاب کرے تو اس کی تعظیم کی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس جب ایک مسلمان عورت اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت وفرمانبردار ی میں حجاب کرتی ہے تو اسے مظلوم کہا جاتا ہے۔

اور اس کی بڑی وجہ ترقی یافتہ اور سیکولر ممالک کی بے حیائی اور بے حجابی کو عام کرنے کے ہتھ کنڈوں پر مسلمانوں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ وہ دنیا میں ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں بیٹی اپنی ماں سے اپنے باپ کے بارے میں نہیں پوچھ سکتی ؟ بیٹی ساری رات باہر رہے ماں ، باپ اس سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتے۔ وہ مغربی معاشرہ جسے تیراکی کے لباس میں گھو منے والی عورتوں سے تو کوئی پریشانی نہیں لیکن باحجاب مسلمان عورتوں سے ڈر ہے۔

اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کا یہ دہرا معیار ان کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ مغرب جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہتا ہے اسلام کے خلاف تعصب کا کیسے مظاہرہ کرتا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ دنیا کو یہ بآور کروائیں کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو معاشرے میں صحیح مقام ومرتبہ دیتا ہے اور اس کے حقوق کا صحیح علمبردار ہے۔ آئیے 4ستمبر کو بین الاقوامی طور پر ”حجاب ڈے“ مناتے ہوئے بے حیائی اور بے حجابی کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :