جانکی ناتھ یا اے ایس دُلت کا کشمیر

جمعرات 4 فروری 2016

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

1990میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں میلیٹنسی شروع ہوئی تو کشمیری پنڈت وادی کشمیر چھوڑ کر جموں میں آباد ہوئے۔ جانکی ناتھ اُسی سال سرکاری نوکری سے 60سال کی عمر میں ریٹائر ہوچکے تھے۔ جانکی ناتھ کے اہل خانہ نے بھی جنت بے نظیر کو خیرباد کہنے اور جموں کا رُخ کرنے کا فیصلہ کیا تو جانکی ناتھ نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی کی60بہاریں کشمیر میں گزاریں اور آخری دن بھی یہاں ہی گزارنا پسند کریں گے۔

چونکہ جانکی ناتھ کو اپنے رشتہ داروں نے کافی سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ پھولوں ، چشموں، آبشاروں اور سبزہ زاروں کی وادی کو کسی صورت بھی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے اور اپنے تمام رشتہ داروں کو دل پر پتھر رکھتے ہوئے خدا حافظ کہہ کر خود اپنے گھر میں اکیلے رہنے لگے۔

(جاری ہے)


جانکی ناتھ کی صحت گزشتہ پانچ سال سے ناساز تھی اور 30جنوری 2016کو85سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

جانکی ناتھ کی آخری رسومات میں انکا کوئی رشتہ دار شریک نہ ہوسکا اور مرنے کے بعد بھی یہاں کے مسلمانوں نے ہی ان کا ساتھ نبھایا اور آخری رسومات انہوں نے ہی بڑے پرتپاک طریقے سے انجام دئے ۔ جانکی ناتھ کے تابوت کو سجایا گیا، خوشبو لگائی گئی اورمیت کو خوشبو دار لکڑی کے بیچ میں رکھ کر جلایا گیا۔جانکی ناتھ کے پڑوسی اُنکے انتقال پر آبدیدہ ہوگئے۔

جانکی ناتھ ضلع کولگام کے علاقے مال وَن میں رہتے تھے جہاں 5000سے زائد لوگ رہتے ہیں اور یہ سب کے سب مسلمان ہیں۔ علاقے میں واحد کشمیری پنڈت ہونے کی وجہ سے جانکی ناتھ سے کشمیری مسلمان بہت محبت کرتے تھے اور انہیں کبھی تنہائی محسوس نہیں ہونے دی گئی۔ جانکی ناتھ کی موت نے یہ ثابت کردیا کہ کشمیری نہ صرف مہمان نواز بلکہ بے لوث محبت کرنے والے فراخ دل اور روشن خیال لوگ ہیں۔


کشمیری نوجوانوں نے اگر 1990میں بندوق اُٹھائی لیکن وہ بندوق ظلم، ناانصافی اور سالہا سال کے استحصال کے خلاف اٹھائی ۔ اگر بندوق عام ہندوں کے خلاف اُٹھاتے تو سومناتھ جیسے عمر رسیدہ ہندو پچیس سال اپنے گھر میں بغیر کسی سیکورٹی زندہ نہ رہتے۔ کشمیریوں نے 1947سے بھارت کے جابرانہ قبضے کے خلاف ہر طریقے سے احتجاج کیا لیکن بھارت نے ہمیشہ لاتوں کا بھوت باتوں سے ماننے والا نہیں کا رویہ اختیار کیا ۔

1987میں کشمیر کی تمام مسلم جماعتوں نے مسلم متحدہ محاذ کے اسٹیج سے ملکر بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے خلاف الیکشن لڑا ، کشمیریوں نے متحدہ محاذکے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا لیکن انتظامیہ نے بھارت نواز جماعتوں کے امیدواروں کی کامیابی کا اعلان کیا جس کے بعد کشمیری نوجوانوں کے پاس بندو ق اُٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ بندوق کا زور دس سال بعد آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگا۔

اس میں کچھ کشمیریوں کی اپنی غلطیاں تھیں اور کچھ کردار نائن الیون کے بعد بدلتے ہوئے عالمی منظر نامہ نے بھی کیا۔ تاہم بندوق نے مسئلہ کشمیر کو ایک انتہائی اہم مسئلہ بنانے میں کلیدی کردار ضرور ادا کیا۔
جانکی ناتھ کا کشمیر میں قیام اوراُن سے کشمیری مسلمانوں کی والہانہ محبت بھارت کے خفیہ ادارے "را"کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب Kashmir, Vajpayee Yearsمیں کیا ہے۔

اے ایس دُلت نے اپنی بڑھاس نکالتے ہوئے لکھا۔ موصوف نے دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے یہ تک لکھا کہ بِکنا کشمیریوں کی ڈی این اے میں ہے اور ہر کشمیری ایک وقت پر دو دو جگہوں پر اپنا سودا کرتا ہے۔ موصوف نے لکھا ہے کشمیریوں نے کئی لبادے اوڑھ رکھے ہیں اور انہیں سمجھنا بہت مشکل ہے۔
اے ایس دُلت نے کتاب میں اگرچہ چند افراد کا نام لیکر ذکر کیا ہے لیکن وہ افراد پوری کشمیری قوم کی نمائندگی نہیں کرتے۔ اصل کشمیر وہ نہیں جس کا خاکہ اے ایس دُلت نے کھینچا ہے بلکہ اصل کشمیر جانکی ناتھ کا کشمیر ہے جہاں سے انہوں نے 1990میں نکلنے سے انکار کیا اور جہاں کے مسلمانوں نے انہیں فیملی ممبر کی طرح محبت کی اور مرتے دم تک ساتھ نبھایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :