الطاف حسین ۔۔۔ اے ٹریجک ہیرو

اتوار 11 ستمبر 2016

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

جن لوگوں نے انگلش لٹریچر میں ٹریجڈیز پڑھی ہوں وہ الطاف حسین کو گریک ٹریجڈیز یا شیکسپیئر ئن ٹریجک پلیز کے ہیرو زکے روپ میں ہی دیکھتے ہیں۔ گریک ٹریجڈیزہوں، مڈل ایجز کی ٹریجڈیز ہوں یا ماڈرن ایجز کی ۔ ہر ٹریجک ہیرو کابنیادی تعلق غریب گھرانے یا متوسط طبقے سے ہوتا ہے، پھر زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے وہ ایک دن بادشاہ یا بادشاہ جیسا رتبہ اور مشہوریت پاتا ہے۔

لیکن ہر ٹریجک ہیرو کا ایک بڑا پرابلم ہوتا ہے وہ یہ کہ ٹریجک ہیرو ہماشیا (Hamartia) کا شکار ہوتا ہے۔ ہماشیاError of Judgement کا نام ہے۔ یعنی ایک ٹریجک ہیرو اپنے فیصلوں میں غلطیوں پر غلطیاں کرتا جاتا ہے اور اسے ان غلطیوں پر پچھتاوا نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کو عقل کل اور ٹھیک راستے پر سمجھتا ہے، کوئی اُس کو یہ کہنے کی جرات تک نہیں کرتا کہ بادشاہ سلامت کسی غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں، اگر کوئی جرات کر بھی لیتا ہے تو اس کو بادشاہ کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا بڑتا ہے یا بادشاہ اور اسکے حواری اسے بیوقوف سمجھتے ہیں۔

(جاری ہے)


ایک مشہور گریک ٹریجڈی ایڈیپس ریکس (Oedipus Rax) کا ہیرو ایڈیپس (Oedipus) اور اس کا باپ کنگ لوئس بھی ہماشیا کا ہی شکار رہے۔ پیشن گوئی کرنے والے گارڈزنے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ غلطیوں کی وجہ سے کنگ لوئس اور اُس کے جانشین بیٹے کا کیا انجام ٹھیک نہیں ہوگا۔ یہ تک بتایا دیاگیا تھا کہ بادشاہ کا بیٹا باپ کو قتل کرکے ماں سے شادی کرے گا اور بیٹا باپ کو قتل کرنے کے بعد بادشاہت کے تخت پر براجمان ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔

لیکن بیٹا بھی غلطیاں کرنے میں باپ سے دو ہاتھ آگے تھا ۔وہ بھی پیش گوئیوں کے باوجود غلطیوں سے باز نہ آیا ۔ اقتدار اور مشہوریت کے نشے میں چور اندھیرے راستوں پر چلتے ہوئے سب کو غلط اور خود کو صحیح سمجھتا رہا، بالآخر وہی ہوا جسکی امید تھی۔ سارے راز افشا ہوئے، تمام غطیوں سے پردہ چاک ہوگیا، تمام حقیقتیں آشکار ہوگئیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔

حقائق واضح ہوگئیں تو ایڈیپس کو حقیقت کا پتہ چل گیا کہ وہ نہ جانتے ہوئے اپنے باشاہ باپ کنگ لوئس کو قتل کرنے کے بعد بادشاہ کی اہلیہ سے شادی کرچکا تھا ۔ اب جو اُسکی بیوی تھی وہ اصل میں اُسکی والدہ تھی۔ حقائق کھل کر آشکار ہونے کے بعد ٹریجک ہیرو ایڈیپس کی والدہ جو اُس کے نکاح میں تھی نے شرم کے مارے خود کشی کی اور ایڈیپس نے سزا کے طور پر اپنی آنکھیں خود اپنے ہاتھوں سے نکال دیں اور دربار چھوڑ کی چلا گیا۔

یہ سارا آناً فاناً نہیں ہوا بلکہ جس ڈگری پر ایڈیپس چل پڑا تھا اُس سے صا ف ظاہر تھا یہی کچھ ہونے والا ہے اور بادشاہ کا ایک غلام بھی بادشاہ کو اشاروں کنائیوں میں حقائق سے آگاہ کرتا تھا ، لیکن بادشاہ تو بادشاہ تھا وہ بھلا غلام کی بات کیسے مانتا!
الطاف حسین کو دیکھا جائے تو ذی شعور لوگوں کو پہلے سے اندازہ تھا کہ جو کچھ الطاف حسین کے ساتھ گزشتہ ایک سال میں ہوا وہ ہونا ہی تھا۔

طاقت، مشہوریت اور بادشاہت کے نشے میں دُھت جناب الطاف حسین جس راہ پر چل پڑے تھے اس کا اختتام کوئی گلشن نہیں بلکہ کنواں ہی نظر آتا تھا، لیکن اس کنویں میں الطاف حسین کو کسی نے نہیں دھکیلا بلکہ ایک طویل سفر کے بعد انہیں اس کنویں میں چھلانگ لگانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، اس کنویں تک پہنچتے ہوئے انہیں شائد کئی لوگوں نے اشاروں میں سمجھایا بھی ہوگا لیکن الطاف حسین بھی گریک ٹریجک ہیرو ایڈیپس ریکس اور شیکسپئیر کے ٹریجک ہیرو کنگ لیئرکی طرح ہماشیا یعنی Error of Judgement کا شکار تھے ۔ وہ بھلا کسی کی بات کیسے مانتے، انجام سب کے سامنے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :