جھوٹ کی فصل

پیر 22 اگست 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ایک افسانوی کردارشیخ چِلی ہوا کرتاتھا جو ہمیشہ دُورکی کوڑیاں لاتا ۔ لوگ اُس کی لاف زنی سے محظوظ توہوتے لیکن کبھی یقین نہ کرتے ۔ ہمارے ہاں بھی ایک ایساہی کردار پایا جاتاہے جوالیکٹرانک میڈیا کوبہت مرغوب ہے کیونکہ ایک تو وہ ہمہ وقت دستیاب ہوتاہے اوردوسرے لاف زنی میں یَدِطولیٰ رکھتاہے ۔ نام اُس کاشیخ رشیدہے جو شیخ چِلی کی طرح دور کی کوڑیاں لاتا ہے ، لوگ محظوظ بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی اُس پریقین نہیں کرتے ۔

ہم نے ایک دفعہ اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ شیخ صاحب اگر لال حویلی کے سامنے ”پھٹا“ لگاکر ، اُس پر فال نکالنے والا طوطا لے کربیٹھ رہیں تواُن کا کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں لیکن شیخ صاحب کویا تو ہماری تجویز پسند نہیں آئی یا پھر ہمارا کالم ہی اُن کی نظروں سے نہیں گزرا ۔

(جاری ہے)

اِس لیے تاحال وہ الیکٹرانک میڈیا پرہی بیٹھ کر طوطافال نکالنے میں مصروف ہیں ۔

اُن کی تازہ ترین پیشین گوئی یہ ہے کہ اگلے تیس دنوں میں نوازلیگ کی حکومت ختم ۔ یہ غالباََ اُن کی ایک ہزارویں پیشین گوئی ہے جوغلط ثابت ہونے جارہی ہے ۔ اِس سے پہلے وہ پانچ سالوں تک ایسی پیشین گوئیاں آصف زرداری صاحب کے بارے میں بھی کرتے رہے ہیں لیکن جب کچھ بَن نہ پڑاتو جَل بھُن کر سیخ کباب ہوتے شیخ صاحب نے کہہ دیا ”فوج ستّو پی کرسوئی ہوئی ہے“۔

دراصل ”وَن میَن پارٹی“ کے سربراہ شیخ رشیداحمد کے بلغمی مزاج کوصرف پرویزمشرف جیسا آمرہی راس آتاہے اسی لیے وہ دِن رات امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی دعائیں مانگتے اور دُرفتنیاں چھوڑتے رہتے ہیں۔
اُدھرہمارے انتہائی محترم سپہ سالار جنرل راحیل شریف ہیں جن کی جمہوریت سے کمٹمنٹ اظہرمِن الشمس ہے ۔ اسی لیے شیخ صاحب کی دال گلتی نظرنہیں آتی ۔

آمرپرویز مشرف کو دَس باروردی میں منتخب کروانے کا دعویٰ کرنے والوں نے توفوج پہ تکیہ کرناشائد چھوڑدیا کہ اُن کی طرف سے اب ایساکوئی بیان نظرنہیں آتالیکن شیخ رشیدکی رَٹ بدستور جاری ہے ۔ جب اُنہیں فوج کی طرف سے کوئی ہلچل نظرنہیں آتی توپھر وہ عوام کو جلاوٴ ، گھیراوٴ ، مارو ، مَرجاوٴ ، جیسے نعرے لگاکر اُکسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن بات وہاں بھی نہیں بنتی ۔

اسی لیے لوگ کہتے ہیں کہ ”شرم اُن کومگر نہیںآ تی“۔
پچھلے انتخابات میں جب شیخ صاحب بُری ہزیمت کاشکار ہوئے تو الیکٹرانک میڈیاکے اینکرز کی غالب اکثریت نے اُنہیں گھاس ڈالناچھوڑ دی ۔وہ چونکہ اپنا رُخِ روشن ہرحالت میں عوام کے سامنے لانا چاہتے تھے اِس لیے ٹی وی چینلز کے مختلف تفریحی پروگراموں میں جلوہ گَرہونے لگے ۔ دراصل اُنہیں ٹی وی سکرین پرآنے کاشوق ہی بہت ہے اور ٹی وی سکرین پر آناکیسے ہے ؟، یہ فَن کوئی شیخ صاحب سے سیکھے ۔

اُن کی ”ناکامی لیگ“ میں چونکہ تانگہ تو دَرکنار ، رکشے کی سواریاں بھی نہیں ، اِس لیے اُنہوں نے کپتان صاحب کاکندھا استعمال کرنا شروع کردیا اور ہرجلسے میں بِن بلائے بھی پہنچ جاتے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف میں اُن کے خلاف نفرت عام ہے ۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے اب وہ فوج کے بعد کپتان صاحب سے بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں ۔

اُن کاتازہ ترین بیان یہ ہے ” عمران خاں تحریک کی کامیابی تک شادی نہ کریں ، وہ تحریک پر نکلتے ہیں تو یا تواُن کاپاوٴں پھسل جاتا ہے ، یاپھر شادی کا تڑکا لگ جاتاہے ۔ اب تو اُن کے بچوں کے بیاہ کی عمرہے“۔ شاید شیخ صاحب نے خبروں میں ”اِن“ رہنے کے لیے سوچاہو کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہم کلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
اُدھر خاں صاحب سمجھتے ہیں کہ دو طلاقوں کے بعدانسان اتنا تجربہ کار ہوجاتا ہے کہ پھرتو اُسے تیسری شادی ضرور کرنی چاہیے۔

اسی لیے آجکل وہ تیسری ”تبدیلی“ کے لیے سَرگرداں ہیں۔ اُنہوں نے شیخ صاحب کو تُرکی بہ ترکہ جواب دیا ”جب شریعت میں شادی جائزہے توشیخ صاحب کوکیا مسٴلہ ہے؟“۔ نہ جانے ہمارے مردوں کو صرف شادی کے معاملے پرہی شریعت کی یاد کیوں ستانے لگتی ہے ، شرعی قوانین تواور بھی بہت ہیں۔
شیخ رشید ہی کی طرح کاایک اورشیخ چِلی بھارت میں بھی پیداہو گیاہے جس کی لاف زَنی اور بڑھک بازی سے اب خودبھارت کے لوگ بھی تنگ اورپریشان ہیں ۔

نام اُس کانریندرمودی ہے اوریہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ وہ وہاں کا وزیرِاعظم بھی ہے ۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اُس کے دہشت گردانہ رویے کی بناپر امریکہ نے اُسے ویزہ دینے سے بھی انکار کردیا تھا لیکن جونہی وہ بھارت کا وزیرِاعظم بنا ، امریکہ نے دیدہ ودِل فرشِ راہ کردیئے ۔ وہ شیخ چِلی کی طرح ”اکھنڈبھارت“ کے خواب دیکھتااور منصوبے باندھتا رہتاہے ۔

اُس بین الاقوامی دروغ گو نے 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کے موقعے پرکہا ”بلوچستان ، آزادکشمیر اورگلگت بلتستان کے لوگوں نے وہاں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے پر میراشکریہ اداکیا ہے“۔ مودی کے اِس بیان کے بعدنہ صرف بلوچستان ، آزادکشمیر اورگلگت میں اُس کے خلاف متواتر جلوس نکل رہے ہیں بلکہ بھارت اورمقبوضہ کشمیر میں بھی لعن طعن ہورہی ہے ۔

کوئی اُس بین الاقوامی دروغ گوسے پوچھے کہ اُسے بلوچستان ، آزادکشمیر یا گلگت بلتستان میں کہاں اور کِس جگہ ظلم ہوتا نظرآیاہے۔ اگر دہشت گردوں کا پیچھا کرناظلم ہے توپھر یہ ظلم ہم کرتے رہیں گے کیونکہ ہمارے نزدیک ”را“ کے ایجنٹوں کاشکار ”عین عبادت ہے“۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان کے باسیوں نے بنا کسی جبرکے اپنی خوشی سے پاکستان سے الحاق کافیصلہ کیا ۔

اُس کے صفِ اوّل کے تقریباََ تمام رہنماء انتخابات میں حصّہ لیتے رہے اور تاحال لے رہے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیرکوظلم وجبر کے بَل پربھارت کااٹوٹ انگ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وہاں ہونے والے مظالم سے پوری دنیا آگاہ ہے ۔ اُسے اقوامِ متحدہ بھی متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہے اوریہ تنازع بھی خود بھارت ہی اقوامِ متحدہ میں لے کرگیا ، کوئی اورنہیں ، جبکہ بلوچستان کو اقوامِ عالم میں سے کوئی بھی متنازع علاقہ تسلیم کرنے کوتیار نہیں ۔

مقبوضہ کشمیر میں تو1948ء سے آزادی کی تحریک جاری ہے اورمتواتر پاکستانی پرچم لہرائے جارہے ہیں جبکہ بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں آج تک کہیں بھی ”ترنگا“ نہیں لہرایا گیا۔ نریندرمودی کے اِس بیان نے بہرحال اقوامِ عالم پریہ توعیاں کردیا کہ بلوچستان میں ہونے والی تمام گَڑبَڑ اور دہشت گردی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی خباثتوں کا ہاتھ ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :