اُردو ہے جس کانام

ہفتہ 18 جولائی 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

بالآخر محترم جسٹس جوادایس خواجہ کا ”کھڑاک“ کام دکھاہی گیااور حکومتی وکیل نے سپریم کورٹ میں وزیرِاعظم صاحب کا 6 جولائی کوجاری کردہ حکم نامہ جمع کروادیا جس کے تحت صدر ،وزیرِاعظم ،وزراء اورسرکاری نمائندگان اندرون اوربیرونِ ملک اُردومیں خطاب کیاکریں گے ۔حکم نامے میں یہ بھی درج ہے کہ 90 دنوں میں تمام سرکاری ونیم سرکاری ادارے اپنی پالیسیوں اور قوانین کااُردوترجمہ کریں گے ،عوامی رہنمائی کے سائن بورڈاُردو میں ہوں گے اورتمام دفتری کارروائی اُردومیں ہی ہواکرے گی ۔

قائدِاعظم نے توتشکیلِ پاکستان کے ساتھ ہی اُردوکو قومی زبان قراردے دیالیکن اِس پرعمل درآمد کسی بھی دَورِحکومت میں نہ ہوسکا ۔اقوامِ عالم کی تواپنی قومی زبان، قومی لباس اورقومی شناخت ہوتی ہے لیکن ہم ٹھہرے ”کاٹھے انگریز“ یاپھر یوں بھی کہاجا سکتاہے ”کوا چلاہنس کی چال اوراپنی چال بھی بھول گیا“۔

(جاری ہے)

68 سال گزرچکے لیکن یہ ”زندہ قوم “تاحال سیاست سے ثقافت تک ”اُدھار“پر ہی گزاراکر رہی ہے ۔

یوں تو ہم دِلی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہرانے کے خبط میں مبتلاء ہیں لیکن ہندوانہ رسوم ورواج کی پابندی کوبھی اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ہم خوب جانتے ہیں کہ اقوامِ مغرب اورامریکہ نے کبھی پاکستان کی بھلائی نہیں چاہی ،اِس موضوع پرلکھتے ہوئے ہم جذباتی بھی بہت ہوجاتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ حکمت کی عالی شان کتاب نے یہ فیصلہ ہی کردیاکہ یہودی اورعیسائی ہمارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے لیکن پھربھی تہذیبِ مغرب ہماری نَس نَس میں سماچکی ہے ۔

اقبال نے تواقوامِ مغرب کومخاطب کرتے ہوئے کہا
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیاں بنے گا ، ناپائیدار ہو گا
لیکن ہمیں تو طبقہٴ اشرافیہ کافردکہلانے کاشوق ہی اتناہے کہ ہماری تہذیب مغربی ، لباس مغربی اورزبان بھی مغربی۔ ہم نے انگریزوں سے آزادی کے لیے لازوال قربانیاں دیں لیکن رہے غلام ابنِ غلام۔

انگریزی تہذیب وثقافت ،انگریزی لباس اورانگریزی زبان کوہی ہم اشرافیہ کی پہچان قراردیتے ہیں۔ آقاﷺ کافرمان ہے ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیارکی وہ اُنہی میں سے ہے“۔لیکن ہماراتو یہ عالم کہ ہمارے سربراہان بھی بیرونی ممالک کے دَوروں کے دوران انگریزی ”جھاڑتے“ نظرآتے ہیں جبکہ دیگرممالک کے سربراہان ،اپنے ملک میں ہوں یابیرونی دوروں پر ،ہمیشہ اپنی قومی زبان کوہی ترجیح دیتے ہیں۔

14 جولائی کو ایران اورچھ بڑی طاقتوں کے مابین جوہری معاہدہ طے پایاتو ایرانی وزیرِخارجہ نے اپنی قومی زبان (فارسی )میں خطاب کیا، انگریزی میں نہیں۔ اگربرادر اسلامی ملک ایران اپنی شناخت برقراررکھنے کے لیے اپنی قومی زبان کوترجیح دے سکتاہے توہم کیوں نہیں؟ ۔
وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ” نسلِ نَو“ نہیں جانتی ہوگی کہ ہماری قومی زبان دنیامیں بولی جانے والی زبانوں میں تیسری بڑی زبان ہے اوریہ وہ واحد زبان ہے جسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان قراردیا جاتاتھااور انگریز مستشرقین اسے ”مورتھ“یعنی مسلمانوں کی زبان کہتے تھے لیکن ہم نے اسے قومی زبان توقرار دے دیامگر وہ توقیرکبھی نہیں بخشی جس کی یہ حقدارتھی ۔

ہم نے اِس کے ساتھ ہمیشہ وہی سلوک کیاجو قومی کھیل ہاکی کے ساتھ کررہے ہیں۔آج ہمارے قومی کھیل کایہ عالم کہ ہماری ٹیم ورلڈکَپ کے لیے کوالیفائی کرسکی نہ اولمپک کے لیے۔ قومی ٹیم کے کپتان نے بڑے دُکھ سے کہا ”نان چنے کھاکر عالمی ٹیموں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا“۔ کچھ ایساہی سلوک ہمارے بیوروکریٹس اُردوکے ساتھ کررہے ہیں۔ ذہنی طورپر انگریزوں کے غلام اِس طبقے کی اولادیں یورپ وامریکہ میں پڑھتی ہیں اسی لیے وہ اردولکھنے ، پڑھنے اوربولنے والوں کو تیسرے درجے کاشہری سمجھتے ہیں البتہ جومُنہ ٹیڑھاکرکے چارحرف انگریزی کے بول لے یہ اُس سے متاثربھی بہت جلد ہوجاتے ہیں۔

کیایہ قومی المیہ نہیں کہ قوم کی رہنمائی کادعویٰ کرنے والا بلاول زرداری قومی زبان بول سکتاہے نہ لکھ اورپڑھ سکتاہے ۔اُسے کون بتلائے کہ یہ اُسی کے ”نانا“ کابنایا ہواآئین ہے جس میں واضح طورپر لکھاہے کہ 15 سالوں کے اندراُردو کوقومی زبان کی حیثیت سے سرکاری زبان اورذریعہٴ تعلیم کے طورپر رائج کردیا جائے گا۔کہا جاسکتاہے کہ آئینِ پاکستان کے باقی آرٹیکلزپر کون ساعمل ہواجو اِس پرہو جاتا۔


ضیاء الحق مرحوم نے بھی قومی زبان اورقومی لباس کابڑا پرچارکیا لیکن ہوا ”کَکھ“ بھی نہیں۔ وہ بھی بیرونی دوروں پر انگریزی ہی میں تقریریں کرتے رہے اوراقوامِ متحدہ میں بھی اُنہوں نے ہمیشہ انگریزی ہی میں خطاب کیا۔ اب چارعشروں سے زائدگزرنے کے بعدمیاں نواز شریف صاحب نے 73ء کے آئین پرعمل درآمدکا ڈول ڈالاہے، دیکھیں اِس پرعمل درآمد بھی ہوتاہے یانہیں۔

ہمیں وزیرِاعظم صاحب کی نیت پرتو کوئی شک نہیں لیکن اُنہوں نے جوٹائم فریم دیاہے وہ ہے بڑاخطرناک۔ وہ 90 دنوں میں پورے پاکستان میں اُردوکی حکمرانی کاخواب دیکھ رہے ہیں لیکن یہ 90 کا ہندسہ توہے ہی ”منحوس“۔ ضیاء الحق مرحوم نے 90 دنوں میں الیکشن کرانے کاوعدہ کیالیکن وہ نوے دِن 9 سالوں سے بھی آگے بڑھ گئے پھرمحترم عمران خاں نے 90 دنوں میں”نیاپاکستان“ بنانے کاوعدہ کیالیکن وہ نوے دنوں میں نیاپاکستان توکیانئے خیبرپختونخوا کی ایک گلی بھی نہ بناسکے۔

وہ تبدیلی توضرورلائے لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں ،اپنی ذاتی زندگی میں۔اب محترمہ ریحام خاں بزعمِ خویش ”خاتونِ اوّل“ہیں اور اُنہیں خیبرپختونخوا کی حدتک وہی پروٹوکول دیاجا رہاہے جوکسی بھی ملک کے سربراہ کی اہلیہ کودیا جاتاہے حالانکہ کپتان صاحب وزیرِاعظم توکجا ،خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ بھی نہیں۔جب ہم یہ کالم سپردِ قلم کررہے تھے توالیکٹرانک میڈیا پرریحام خاں کی ”جعلی ڈگری“ کاشورمچا ہواتھا ۔

جس برطانوی اخبارنے محترم عمران خاں کی ریحام خاں سے شادی کی خبر سب سے پہلے بریک کی تھی اُسی اخبارکی رپورٹ کے مطابق ریحام خاں کا یہ دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے نارتھ لینزے کالج سے ”براڈکاسٹ جرنلزم“ کی ڈگری حاصل کی جبکہ لنزے کالج کے اربابِ اختیارکا دعویٰ ہے کہ وہ تو یہ” کورس“ کرواتے ہی نہیں اور نہ ہی اُن کے ریکارڈکے مطابق ریحام خاں کسی بھی کورس میں اُن کی سٹوڈنٹ رہی ہیں۔

اخباری رپورٹ اورلنزے کالج کی وضاحت کے باوجودہمیں یقین ہے کہ ریحام خاں”جھوٹ“ نہیں بولتیں ،البتہ یہ ہوسکتاہے کہ وہ کالج کانام بھول گئی ہوں۔ خیریہ توبڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں جن کے ہاں”ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے ،خواہ اصلی ہویا جعلی“، ہم توبات کررہے تھے 90 دنوں کی جن میں بقول وزیرِاعظم ہماری پیاری زبان نے ”آ جانا اورچھا جاناہے“۔

ہمیں90 دنوں سے اِس لیے بھی ڈرلگتا ہے کہ کراچی میں ایک جگہ نائن زیرو(90) بھی ہے جواتنی خطرناک کہ اُس کانام سنتے ہی بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ خودنائن زیروکے مالک کافرمان ہے ” نائن زیروپر تولوگ آتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں لیکن جنہوں نے چھاپامارا وہ بڑے مردکے بچے تھے، وہ تھے اور ”تھے“ ہوجائیں گے“۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ جنہوں نے چھاپامارا وہ ”ہیں“ اوررہیں گے البتہ اب انشاء اللہ ”تھے“وہی ہوں گے جنہوں نے روشنیوں کے شہرکو خونم خون کردیا ۔

محترم میاں صاحب بھی 90دنوں ہی کی بات کررہے ہیں لیکن کیایہ وعدہ پوراہو گا؟۔ اتنی قلیل مدت میں یہ سب کچھ ہونابظاہر توناممکنات میں سے ہے کیونکہ” وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نے“البتہ یہ بھی درست کہ”ڈنڈا پیراستاد اے وگڑیاں تگڑیاں دا“۔ اگرمیاں صاحب نے عزمِ صمیم کا ”ڈنڈا“اٹھا لیاتووثوق سے کہاجا سکتاہے کہ بیوروکریسی بھی سیدھی ہوجائے گی کیونکہ اُردوکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہی توہے۔ ہمارے اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلی تواِس راہ کی رکاوٹ ہرگز نہیں۔ وہ بیچارے توہماری طرح سے ہی اِس ”ٹُٹ پَینی“انگریزی سے بہت تنگ ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :