ہوکائیدو سے دیپالپور تک

جمعرات 28 جنوری 2016

Qasim Ali

قاسم علی

جاپان دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحراوقیانوس کے قریب 6852جزیروں پر مشتمل ایک ملک ہے 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے اس کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر انہیں نیست و نابود کردیا ان شہروں کی تباہی کے بعد جاپان آسمان سے زمین پر آگرا مگر جاپانیوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی شبانہ روز محنت سے اپنے ملک کو اس مقام تک پہنچادیا کہ آج وہی امریکہ جس نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی اسی جاپان کا بڑا مقروض ہے جاپان ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس نے اپنی عوام کیلئے وہ سروسز فراہم کی ہیں کہ جن کے باعث اس ملک کا ہر باشندہ بھی اپنے ملک کی تعمیروترقی کیلئے اپنی جان لڑا دیتا ہے جاپانی حکومت اپنے شہریوں کیلئے کیا کچھ کرتی ہے اور ان کو سہولیات کی فراہمی کیلئے کہاں تک جاسکتی ہے یہ جاننے کیلئے ہوکائیدو کایہ واقعہ ہی کافی ہے ۔

(جاری ہے)

ہوکائیدو جاپان کے ایک جزیرے کا نام ہے یہ جزیرہ عام شہری علاقوں سے خاصا دوردراز واقع ہے یہاں پر جاپان کے محکمہ ریلوے کا کامی شراتاکی نامی ایک سٹیشن ہے چونکہ یہاں سے مسافروں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہوگئی تھی اس لئے حکومت نے اس سٹیشن کو بند کرنے فیصلہ کرلیا مگر جب اس سٹیشن کو بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جانے والا تھا متعلقہ محکمہ کو بتایا گیا کہ اس سٹیشن سے ایک لڑکی ہر روز کالج جاتی ہے اور اس ویرانے میں اس ٹرین کے سوا اور کوئی متبادل انتظام نہیں اگر ریل سروس معطل کردی گئی تو اس لڑکی کی تعلیم متاثر ہوسکتی ہے اس اطلاع کی کنفرمیشن کے بعد محکمہ ریلوے نے اپنا ارادہ تبدیل کرتے ہوئے کاماشراتاکی ریلوے سٹیشن پر ریل سروس کو جاری رکھنے کا حکم جاری کردیا یوں جاپان کی حکومت صرف ایک لڑکی کی تعلیم کے پیش نظر تین سال سے دو ریل گاڑیاں فراہم کررہی ہے اور ان کا ٹائم ٹیبل بھی اس لڑکی کے کالج آنے اور واپس جانے کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے ۔

ایک ٹرین اس سٹوڈنٹ لڑکی کو کالج لے کر جاتی ہے اور دوسری اسے واپس گھر لاتی ہے ۔ایسی ہی ایک مثال غالباََ شمالی کوریا کی ہے جہاں صرف چند منٹ کی لوڈ شیڈنگ اور بروقت خرابی کا پتا نہ چلنے پر بجلی کے محکمے کے وزیر نے استعفیٰ دے دیا۔ اب آتے ہیں پاکستان کی طرف جو کم و بیش جاپان کیساتھ ہی آزاد ہوامگر فرق صرف یہ تھا کہ جاپان نے محنت اور دیانت کا رستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس پر قدرت نے انہیں حکمران بھی ایسے ہی دئیے جنہوں نے ملک کا حاکم ہونے کے باوجود قومی خزانے کو استعمال نہ کیا اوراپناپیٹ پالنے کیلئے اپنا چھوٹا موٹا کاروبار کیا جہاں کی ورکشاپس اور تمام اداروں میں سربراہ اور مزدور ایک ہی لباس پہنتے ہیں اور سب کا مقصدر صرف اور صرف ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے جاپان کی ترقی و خوشحالی جبکہ ہمارا یہ عالم ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوتے رہے جو مملکت خداداد کو ایک چراگاہ سمجھتے رہے ہیں جہاں پر رہنے والے کروڑوں باشندے ان کیلئے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت و بساط نہیں رکھتے یوں اسلام کی تجربہ گاہ بننے کیلئے وجود میں آنیوالا ملک پاکستان ایسے بھیڑیوں کی شکارگاہ بن گیا جو آئے روز عوام کو چیر پھاڑ کھاتے ہیں جن کیلئے آئین و قانون موم کی ناک سے زیادہ کچھ نہیں جس کو جب چاہیں اور جس طرف موڑ لیتے ہیں جہاں پر پتنگ اڑانے اور روٹی چرانے والے کو فوری اور کڑی سزا دی جاتی ہے جبکہ عوام کے خون پسینے کی کمائی اور ٹیکس سے بھرے خزانے کو اربوں کا ٹیکہ لگانے والوں کونعروں کی گونج میں مسند اقتدارپر بٹھایاجاتا ہے اس سب خرابی کا ذمہ دار اور کوئی نہیں ہم خود ہیں کہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تم پر حکمران مسلط کئے جائیں گے ۔

خیر بات ہوکائیدو کے ریلوے سٹیشن کی ہورہی تھی جہاں پر عوام کی تعلیم اور ان کو سفر کی سہولت کیلئے اور ایک مسافر کیلئے حکومت کروڑوں کا سالانہ خسارہ برداشت کررہی ہے اب ہم دیپالپور کی طرف آتے ہیں پاکستان کے ضلع اوکاڑہ سے پچیس کلومیٹر آگے دیپالپور کے تاریخی شہر کا عالم یہ ہے کہ اس شہر کو اوکاڑہ سے ملانے کیلئے جو سڑک ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف بائیس کلومیٹر کایہ ٹکڑا ہرروز تین سے پانچ انسانوں کو نگل رہاہے جس کے باعث مقامی لوگ اس سڑک کو شاہرائے موت کہنا شروع ہوگئے ہیں یادرہے دیپالپور پاکستان کی سب سے بڑی تحصیل ہے اس لئے اپنے کام کاج کیلئے اس پر روزانہ لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں مگر اس کو ون وے نہ بنائے جانے کے باعث ہرسال ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں ایہی سڑک آگے چل کر قصور روڈ کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اسی راستے پر دیپالپور کا واحد سرکاری ہسپتال بھی ہے جس کی اپنی بدحالی اور ڈاکٹرز کی عدم فراہمی اپنی جگہ مگر اس سڑک کا کرشمہ یہ ہے کہ اس کو پار کرکے ہسپتال تک پہنچنا پل صراط کو عبور کرنے جیسا ہی لگتا ہے کچہری چوک سے ہسپتال تک کا یہ فقط دوکلومیٹر کا ٹکڑا برسوں سے اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ الامان و لحفیظ کئی حادثات کے باعث لوگ معذور ہوچکے ہیں اور اس سڑک کی ناہمواری کی وجہ سے ہونیوالے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بھی کئی افراد اس جہان فانی سے کوچ کرچکے ہیں بیشمار بار یہ مسئلہ میڈیا نے اٹھایا مگر مجال ہے کسی بھی حکومتی نمائندے نے اس کے حل کی جانب توجہ دی ہو وجہ وجہ یہ ہے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت اور ان کے ٹیکسز کو درست طور پر خرچ کرنا ہمارے نمائندوں کی ترجیح ہی نہیں یہاں پر سیاست ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرچکی ہے جہاں پر ایک بار کروڑوں کی انویسٹمنٹ کرکے پوری زندگی کھایا جاتا ہے عوام جائے بھاڑ میں کاش کہ ہمارے عوامی نمائندے اور حکمران ہوکائیدو کے اس واقعے سے سبق سیکھیں اور دیپالپور کے اوکاڑہ روڈ سمیت تمام ایسے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کریں جوعوام کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے میں رکاوٹ ہیں اور یہ تب ہی ہوگا جب عوام کے یہ نمائندے اور بیوروکریٹس ٹھنڈے اور گرم کمروں سے نکل کر واقعی عوام کی خدمت کیلئے میدان عمل میں آئیں گے اور اس سے بھی پہلے ہمیں خود کو ٹھیک کرنا ہوگا کہ یہ ایک ابدی حقیقت ہے جیسے تم ویسے ہی تمھارے حکمران۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :