امام کربلا سے مدینہ تک

ہفتہ 24 اکتوبر 2015

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

معرکہِ حق وباطل میں جو مقام اور عروج امام حسین کو حاصل ہے، یزید کو تاریخ اسلام اس کے برعکس اتنا ہی زوال اور پسماندگی حاصل ہے۔ ۔امام حسین جنت میں نوجوانوں کے سردارکو یزید کے لشکر نے سن 61 ہجری میں دریائے فرات کے کنارے کربلا کے مقام پر خاندان کے افراد اور رفقاء کے ساتھ گھیر لیا، آپ کے جانثاروں کی تعداد 72تھی جبکہ دوسری طرف ہزاروں کا لشکر۔

۔ یزیدی لشکر نے آپ  کو صرف دو چوائس دیں۔ ۔ یزید کی بیعت یا موت ۔ ۔آپ نواسہ رسولﷺ باطل کے آگے جھکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ۔ لہذا باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ اٹل تھا ۔ ۔ابن سعد نے جب دیکھا کہ امام عالی مقام بیعت کے لیے تیا ر نہیں تو اس نے نواسہ رسولﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔۔ 9محرم کا دن تھا اور دو دن پہلے ہی دریائے فرات کا پانی آپ اور آپ کے لشکر کے لیے بند کر دیا گیا ،جب امام عالی مقام تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے یزیدی لشکر سے ایک رات کی مہلت مانگی ، ایک رات کی اجازت مل گئی تو آپ نے سب سے پہلے اپنے ساتھیوں کو پاس بٹھایا اور کہا یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں آپ لوگ میری وجہ سے مشکل میں ناں پڑیں مگر آپ کا کوئی جانثار بھی جانے کے لیے تیار نہ ہوا ،کہا ہم آپ کی خاطر کٹ مریں گے،آپ نے جب یہ جزبہ دیکھا توکہا کہ یہ رات اللہ کی عبادت میں گزار دو، آپ بھی اپنے خیمے میں عبادت اور صبرو استقلال کی دعائیں کرتے رہے ۔

(جاری ہے)

۔فجر کی نماز اداکی یہ 10 محرم کا دن تھاسورج خون کی سرخی لیے نمودار ہوا ۔ ۔ ۔ کربلا کے میدان میں ایک یک کرکے آپ کے سارے ساتھی جن میں آپ کے بیٹے اور قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے شہید ہوتے گئے حتی کہ اب نواسہ ِ رسول ﷺ ،نبیﷺ کے کاندھوں پہ سواری کرنے والا، رسول اللہﷺ کی نمازوں کے سجدوں کو طوالت دینے والا، حسین ابن علی صبرواستقامت کا پہاڑ تمام لاشوں کو اکٹھا کرنے والے حسین کی رخصت کا وقت آتا ہے ، زینب رضی اللہ عنہا گھوڑے کی رکاب تھامتی ہیں اور امام عالی مقام میدان کربلامیں یزیدی لشکرکے درمیان پہنچتے ہیں،آپ میدان کربلا میں کھڑے ہیں کسی کو ہمت نہیں کہ آکر آپ کا مقابلہ کرے، پورے لشکر پر خاموشی چھائی ہوئی ہے کوئی آپ کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا، دور سے ہی تیر برسائے جا رہے ہیں، تیروں کی بارش سے آپ کا جسمِ اطہر چھلنی ہوجاتاہے، آپ زخموں سے چور ہیں،یزیدی لشکر آپ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں، نیزے اور تلواروں کے زخموں سے چھلنی امام عالی مقام گھوڑے سے نیچے تشریف لے آتے ہیں،شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی آپ کے قریب آتے ہیں، نماز کا وقت ہے، امام عالی مقام کربلا کی مٹی سے تیمم فرما کر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے، شمر بدبخت آگے بڑھا اور سجدے کی حالت میں آپ کا سر تن سے جداکر دیتا ہے۔

۔۔ ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔ کربلا کی تپتی ریت پرشمر کی تلوارکے سائے میں نماز ادا کی ،سجدے کی حالت میںآ پ کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا گیا ،آپ نیزے کی انی پہ سوار ہوگئے مگر باطل کے آگے سر تسلیمِ خم نہیں کیا۔ حضرت امام حسین  اپنا سارا گھرانہ اللہ کی راہ میں قربان کرچکے ہیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے توحید الٰہی کی گواہی دے چکے ، حسینیت زندہ ہوگئی ،حسین کامران رہے اور قیامت تک اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے ۔


محدثین بیان کرتے ہیں(بحوالہ ذبح عظیم)امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، بلکہ زمین وآسمان نے بھی آنسو بہائے، نواسہ رسولﷺ کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیااس کے نیچے سے خون نکلا۔ ۔ شام میں بھی جو پتھر ہٹایا گیااس کے نیچے سے بھی خون کا چشمہ اُبل پڑا۔محدثین کا کہنا ہے شہادت حسین سے پہلے آسمان سرخ ہوگیا۔

۔پھر سیاہ ہو گیا۔۔ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابو قبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ۔۔
ترجمہ:جب سیدنا امام حسین کو شہید کیا گیاتو سورج کو شدید گہن لگ گیاحتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودارہوگئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ رات ہے۔
امام طبرانی نے معجم الکبیرمیں جمیل بن زیدسے روایت کی ہے انہوں نے کہا۔

۔
ترجمہ:جب حسین  کو شہید کیا گیا تو آسمان سرُخ ہوگیا۔
خاندانِ امام کے لئے غموں اور دکھوں کی اور یزیدی لشکر کے لئے جشن کی رات کٹ گئی ، یزیدی لشکر میں کسی نے مشورہ دیا کہ حضرت زین العابدین کو بھی شہید کر دیا جائے مگر ابن سعدنے اس کے مشورے پر عمل ناں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اگلی صبح یزیدیوں نے اپنی تمام لاشوں کو اکٹھا کیا ، دفن کیا اور چلنے کی واپسی کی تیاری کرنے لگے ۔

۔یزیدی لشکر نے سیدنا امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کے سر نیزوں پہ چڑھا لئے جسموں کو بے گورو کفن چھوڑا ، حضرت زین العابدین اور اہل بیت کو ساتھ لیااور کوفہ کی جانب روانہ ہوگئے۔۔ ۔ ۔دریائے فرات کے کنارے آبا د قبیلہ بنو سعد نے جب دیکھا کہ یزیدی اہل ِ بیت کی لاشوں کو بے گورو کفن چھوڑ کر بھاگ کئے ہیں تو انہوں نے تمام شہداء کے مبارک جسموں کے لئے کفن ودفن کا انتظام کیا۔

۔ ۔ ۔ یزیدیوں کا قافلہ شہدائے کربلا کے سروں سمیت اہلِ بیت کو لے کر ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچ گیا،ابن زیاد نے امام عالی مقام  کے سرِ مقدس کی بے حرمتی کی اور لشکر کو اہلِ بیت سمیت یزید کے پاس دمشق روانہ کردیا۔راستے میں ایک گرجہ گر کے قریب پڑاؤ کیا ، قافلے نے سامنے ایک پہاڑی کے اوپر سرخ رنگ میں ایک شعر لکھا ہوا دیکھا۔۔
ترجمہ: جس قوم نے حسین کو قتل کر دیا کیا وہ قیامت کے دن ان کے نانا جان کی شفاعت کی امید رکھ سکتی ہے۔

۔؟
اہلِ قافلہ نے جب یہ شعر لکھا دیکھا تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ شعر یہاں کب اور کیسے لکھا گیا۔ ۔ ابھی سب حیرت میں تھے کہ پاس گرجے سے ایک پادری نکلا اور ان کے قریب آ یا تو قافلے والوں نے اس شعر کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ شعر یہاں کب سے لکھا ہوا ہے۔ ؟ پادری نے کہا معلوم نہیں یہ میری پیدائش سے پہلے کا لکھا ہواہے ، ہمارے آباؤ اجداد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پیدائش سے پہلے سے ہی اسے لکھاہو ا پایا ہے۔

۔ ۔ ۔ یہ بتانے کے لیے کہ ظالمو وہ گروہ تم میں سے ہوگا جو تمہیں کلمہ پڑھانے والے نبی ﷺ کے نواسے کو شہید کردے گا۔ ۔ راہب نے جب یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا یہ سر کس کا ہے، کیا ماجرا ہے اور یہ قافلہ کیساہے۔۔؟ جواب ملا یہ نبی ﷺ کے نواسے حسین  ابن علی کا سر ہے۔ ۔ راہب لرز اٹھا ، بولا ظالمو جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہو اسی کے نواسے کو قتل کردیا۔ ۔

راہب نے کہا میں آپ کو دس ہزار دینار دیتاہوں تم لوگ آج رات یہیں قیام کر لو اور ان سروں کی میزبانی مجھے کرنے دو ۔ ۔ لالچی یزیدی دس ہزار دینار کے بدلے رات گزارنے کے لئے راضی ہوگئے، پاکیزہ سر راہب کو ایک رات کے لئے دے دئیے۔ راہب نے اپنا گھر صاف کروایا اور اپنے گھر کی خواتین سے کہا کہ آپ ان پاک دامن خواتین کی خدمت کریں یہ نبی کی اولاد ہیں اور خود ایک کمرے کو صاف کرکے امام حسین کے پاکیزہ سر کو ایک صاف شفاف برتن میں رکھا ۔

۔ صاف پانی سے دھویا خوشبو لگائی اور ساری رات ہاتھ باندھے کھڑا رہا اور زارو قطار روتارہااور یہ کہتا رہا ۔ ۔ ۔ ( اے حسین ! میں مسلمان نہیں ہوں ، آپ کے نانا کا کلمہ نہیں پڑھا پھر بھی یہ خوفناک منظر دیکھنے سے قاصر ہوں، یہ حریص اورذلیل ظالم لوگ کس بے دردی سے آپ کے خاندان کو ذبح کرکے بڑی بے پرواہی سے سفر کررہے ہیں انہیں احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کتنا بڑا جرم کیا )
ساری رات اس کے خاندان کی بیبیاں اہلِ بیت کی خدمت کرتی رہیں اور دعائیں لیتی رہیں۔

۔ سرِ حسین  بھی زبان حال سے دعائیں دیتے رہے۔ ۔ یکایک اس کی قسمت کا ستارہ چمکا آنکھوں سے کفر کے پردے اٹھ گئے اس نے کلمہ حق پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ ۔ چنانچہ صبح جب قافلہ روانہ ہوا تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی ہو لیا، سفرکی مزلیں طے کرتاہوا یہ قافلہ یزید کے دربار میں داخل ہوا ۔ ۔ یزید پلید پہلے سے ہی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا ۔ ۔ سرِ حسین  یزید کو جو مغرور انداز میں ہاتھ میں چھڑی لئے تخت پہ بیٹھا تھا پیش کردیاگیا ۔

۔امام کے سر مبارک کو دیکھ کر یزید کے تن میں آگ لگ گئی اس نے چھڑی امام حسین  کے دندان مبارک پر ماری اور غصے سے بولا تم اپنے انجام کو پہنچ گئے، دربار میں حضور ﷺ کے ایک بزرگ صحابی حضرت ابو برزہ  بھی موجود تھے جو یزید کے اس حرکت پر چپ ناں رہ سکے اور یزید کو ڈانٹ کر فرمانے لگے۔ ۔ ۔ ۔ظالم ! اس گستاخی اور بے ہودہ حرکت سے باز آجا ،میں نے خود آنحضرت ﷺ کو ان ہونٹون کو بار بار چومتے دیکھا ہے۔

۔یزید سے سچ برداشت ناں ہوا اس نے اس بزرگ صحابی کو اپنے دربار سے نکال دیا۔۔ ۔ ۔ دربارِ یزید میں روم کا ایک سفیر بھی موجود تھااس نے بتایا کہ میں حضرت موسیٰ کی نسل سے ہوں اور اب تل ستر (70) پشتیں گزر چکی ہیں اس کے باوجود حضرت موسیٰ  کے امتی میری بے حد تعظیم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ اپنے نبی کے نواسے کو بے دردی سے قتل کردیا۔ ۔۔۔یزید نے خوب جشن منایا ابن زیاداور دوسرے ساتھیوں کو انعام و اکرام سے نوازا مگر جب اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے اور اس نے دیکھا کہ لوگوں کے تیور بدل رہے ہیں تو اس نے اپنی چال بدلی اور بڑی منافقت سے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا برا ہو ابنِ زیاد کا جس نے حسین کو قتل کیا میں نے تو زندہ پکڑ کر لانے کا کہا تھا ۔

۔ مگر زمانہ گواہ ہے اس نے ابن سعد یا ابن ِ زیاد یا کسی اور کو کو ئی سزا ناں دی کیونکہ یہ سب اس کی چال تھی صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے جبکہ اندر سے وہ بہت خوش تھا ،یہ صرف اور صرف مگر مچھ کے آنسو تھے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اس نے اہل ِ بیت کے قافلے کودمشق کے بازاروں میں گھمایا ، امام حسین  اور دیگر شہداء کے سروں کو نیزون پر لگاکر جلوس کی شکل میں بازاروں میں گشت کرایا۔

۔ روایت میں آتاہے حضرت امام حسین  کے سر مبارک کو جب دمشق کے بازاروں میں لے کر جارہے تھے ایک مکان کے قریب سے گزرے تو وہاں ایک شخص قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا ۔
ترجمہ: کیا تو نے سوچا کہ اصحاب کہف یعنی غار والے لوگ ہماری عجیب نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے
روایت میں آتاہے اس وقت امام کا سرِ مبارک کو اللہ تعالی نے زبان عطا کی ۔ ۔

امام کا سر نیزے سے گھوما اور جس طرف سے آواز آرہی تھی اس طرف منہ کر کے امام نے فرمایا۔ ۔ (کہف اور رقیم کے واقعات پر تعجب کرنے والو! نواسہ رسول ﷺ کا سر کٹ کر نیزے پر سوا ر کیا جانا یہ کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر ہے اور زیادہ درد ناک ہے) اس واقعہ کے بعد مقدس قافلے کی بیبیوں کو حضرت زین العابدین کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کر دیا گیا۔ ۔ یہ لٹا ہوا قافلہ حضرت زین العابدین کی قیادت میں جب مدینہ پہنچا تو کہرام مچ گیا قیامت بپا ہوگئی یہ وہی گلیا ں اور بازار تھے جہاں جنت میں نوجوانوں کے سردار اپنے نانا کے کندھوں پہ سفر کیا کرتے تھے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :