خوفزدہ والدین کو حقائق کون بتائے گا ؟

پیر 22 اگست 2016

Syed Badar Saeed

سید بدر سعید

سرکار دو عالم ﷺ چودہ سو برس قبل ہی فرما چکے ہیں ، کسی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ سنی سنائی بات بنا تصدیق آگے پھیلا دے ۔ سوال یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کئی مثبت تبدیلیاں لایا ہے ۔ کسی بھی واقعہ کی سب سے پہلی خبر ہمیں یہیں سے ملتی ہے ۔ تصویر کا یہ رخ جتنا خوبصورت لگتا ہے دوسرا رخ اتنا ہی بھیانک ہے ۔

سوشل میڈیا تاحال صرف اور صرف سچ کا ترجمان نہیں بن پایا ۔ یہاں سچ سے زیادہ پراپگنڈے کا راج ہے جو کہ ہم سب کے لئے تشویش کا باعث ہے ۔ ہم نے ہمیشہ سچائی تک رسائی کی کوشش کی ہے ۔ اب بھی ہمیں ہی سوچنا ہو گا کہ ہم غیر حقیقی خبروں اور پراپگنڈے کا مقابلہ کیسے کریں۔ پاکستان میں آزادی صحافت اور سچائی کی ترجمانی کرنے والوں نے ایک طویل سفر طے کیا ہے ۔

(جاری ہے)

صحافیوں نے ماریں بھی کھائی ہیں اور قربانیاں بھی دی ہیں ۔دہشت گردوں کی گولیاں بھی انہیں جھوٹی خبریں پھیلانے پر مجبور نہیں کر سکیں ۔ ہمیں یہ بھی فخر ہے کہ صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق بھی صحافی راہنماؤں اور تنظیموں نے ہی ترتیب دئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے اکثر ان قوانین اور ضابطوں کو صحافت کی ڈگری لینے کے بعد بھول جاتے ہیں ۔


پرانے واقعات کو دھرانے کا کوئی فائدہ نہیں ،ایک حالیہ مثال البتہ ہمارے سامنے ہے ۔ پاکستان میں بچوں کے اغوا کی داستانوں نے والدین کی بڑی تعداد کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے ۔ اس خوف کو سیاسی مقاصد کے لئے تو پروان چڑھایا ہی گیا لیکن خود میڈیا کی ریٹنگ گیم کے چکر میں بھی ایسی خبریں چلتی رہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں ۔صرف یکم اگست سے اٹھارہ اگست تک میڈیا پر 61 ایسی خبریں چلائی جا چکی ہیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں ۔

اس کا سب سے زیادہ نقصان میڈیا کی ساکھ کو ہوا ہے ۔ میں نے گذشتہ دنوں مختلف رپورٹس کا جائزہ لیا ہے اس لئے پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ دہشت گردی کنٹرول ہونے کے بعد کسی اور طریقہ سے مسلسل خوف پھیلانے کے عمل میں ملک دشمن عناصر کے مفادات جڑے ہوئے ہیں ،حقائق البتہ چھپے نہیں رہ سکتے ۔ میڈیا پر لاپتہ بچوں کا معاملہ ”ہاٹ کیک“ بنا تو سپریم کورٹ نے بھی اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ۔

اس کمیٹی نے شکایات کے لئے خصوصی ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے ۔رپورٹ کے مطابق اب تک اس کمیٹی کو بچوں کے اغوا کی صرف24 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں 2006 اور 2007 میں اغوا ہونے والے بچوں کی شکایات بھی شامل ہیں ۔ سپریم کورٹ کی اس اعلی سطحی کمیٹی نے اپنی معاونت کے لئے فرانزک لیب اور پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود سے بھی معاونت طلب کی تھی۔

اس اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق اتھارٹی کو بچے تو ایک طرف کسی بڑے شخص کے اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری کی بھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ۔
پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی کا یہ کہنا ہے کہ اغوا کر کے کسی بچے کے جسمانی اعضا کی خرید و فروخت ممکن ہی نہیں ہے ۔ ماہر سرجنز اور ڈاکٹرز کے مطابق جسمانی اعضا کی پیوندکاری کے لئے ٹشوز کی میچنگ کا ایک لمبا پراسس ہے جبکہ جسم سے علیحدگی کے بعد کسی عضو کی زندگی چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی ۔

دیگر الفاظ میں اعضا کی منتقلی کے لئے پہلے ٹشوز میچ کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد جس ڈونر کے ٹشو مریض کے ٹشوز سے میچ ہوں صرف اسی کا عضو نکالا جاتا ہے ۔ ایسا کسی صورت ممکن نہیں کہ کسی شخص کو اٹھا کر لایا جائے اور اس کے اعضا نکال کر ان پر برائے فروخت کا ٹیگ لگا دیا جائے۔
لاپتہ بچوں کے حوالے سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبریں اور زمینی حقائق میں اس قدر فرق ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔

پنجاب میں گزشتہ ساڑھے پانچ برس میں لاپتہ ہونے والے بچوں کے اعدادو شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جذباتیت بیچنے والے کس طرح ہمارے جذبات کو اپنی ریٹنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ان کا مقصد محض اپنے سوشل میڈیا پیج کی ریٹنگ بڑھانا ہوتا ہے لیکن اس سے ملک و قوم کو جو نقصان ہوتا ہے شاید اس کا اندازہ بھی ممکن نہیں ۔ 4، اگست 2016 کی ایک اور رپورٹ کے مطابق 2011 میں 1272 بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس درج ہوئیں جن میں سے 1264 بچے بازیاب ہو گئے ۔

2012 میں 1260 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 1256 بچے بازیاب ہو گئے ۔ اگلے برس یعنی 2013 میں 1157 گم ہوئے جن میں سے 1141 بچے واپس اپنے گھر پہنچ گئے ۔ 2014 میں 1203 بچے لاپتہ ہونے کی رپورٹس تھیں جن میں سے 1185 بچے اپنے گھروں میں ہیں ۔ گذشتہ برس 2015 میں 1134 بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے 1093 بچے واپس آ گئے ۔ اس برس 2016 میں جولائی تک 767 بچوں کے لاپتہ ہونے کی شکایات درج ہوئیں جن میں سے 722 بچے اب اپنے گھروں میں ہیں ۔

ان اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 5 سالوں میں لاپتہ ہونے والے بچوں میں سے 98 فیصد بچے اب اپنے گھروں میں ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہم نے ہزاروں لاپتہ بچے بازیاب ہونے پر پولیس کی کارکردگی کو سراہا ؟
ہر سال ایک ہزار سے زیادہ بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس توہمارے سامنے ہیں لیکن اگر ہزار میں سے محض 4 یا 8 بچے لاپتہ جبکہ باقی اپنے گھروں میں ہیں تو پھر ہم ہزاروں بچے لاپتہ ہونے کی خبریں کیوں چلاتے ہیں ؟ یہاں منظر نامے کا ایک اور رخ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

ہم اس عرصہ میں دہشت گردی اور حادثات کا بھی شکار رہے ہیں ۔ بم دھماکوں اور حادثات میں بعض لاشیں ناقابل شناخت ہوتی ہیں ۔عموما چھوٹے بچوں کے پاس اپنی اور گھر والوں کی شناخت کا کوئی حوالہ بھی نہیں ہوتا ۔ سوال یہ ہے کہ جو چند بچے تاحال نہیں مل سکے کہیں وہ ان دھماکوں یا حادثات کا شکار تو نہیں ہوئے ۔ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ہمیں گھروں سے بھاگ کر مختلف درباروں اور فٹ پاتھ پر پناہ لینے والے جو بچے نظر آتے ہیں کیا یہ وہی بچے تو نہیں جو ابھی تک گھر نہیں لوٹے ؟ ان کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ تو ان کے والدین نے بھی درج کرائی ہو گی جو ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے ۔

میڈیا پر لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد پر مبنی خبریں تو چلتی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان میں سے کتنے بچے واپس گھر آ چکے ہیں ۔ ہم نے سچائی تک رسائی کے لئے متعدد قربانیاں دی ہیں اور اب ہمیں ہی اس ساکھ کو برقرار رکھنا ہے ۔ ریٹنگ گیم کی بجائے ہمیں تصویر کے دونوں رخ دکھانے ہوں گے تاکہ عوام کا اعتماد ہم پر بحال رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :