عوام کے خادم یاظالم۔۔۔۔؟

بدھ 25 مئی 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

دروازے پر دستک ہوتی ہے ۔۔ آپ فوراً دروازہ کھولتے ہیں ۔۔سامنے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نوجوان یا بوڑھا ہاتھ میں کشکول پکڑ کر ،،اللہ کے نام پر دو،، کی صدا لگاتا ہے۔ آپ اس کے کشکول میں اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں ۔۔۔ وہ بوڑھا یا جوان وہاں سے چلا جاتا ہے ۔۔۔۔ کچھ دن ۔۔ مہینے یا سال بعد وہی کشکول والا بابا یا نوجوان ہاتھ میں ڈنڈا۔۔۔ چھری ۔

۔۔ آہنی راڈ۔۔۔ اینٹ ۔۔۔ پتھر یا کوئی اور چیز اٹھائے آپ کے گھر یا دکان پہنچ جاتا ہے لیکن اس بار وہ دروازہ کھٹکھٹاتا نہیں نہ ہی دروازے پر کوئی ہلکی سی دستک دیتا ہے بلکہ پہنچنے کے ساتھ ہی وہ آپ کے گھر یا دکان کے دروازے پر لاتوں ۔۔۔ مکوں ۔۔۔ اینٹوں اور پتھروں کی بارش شروع کر دیتا ہے ۔ بزور طاقت آپ کے دکان یا گھر کا دروازہ ٹوٹ جاتا ہے یا گر جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

پردہ ہٹنے پرنظر پڑتے ہی آپ کے ذہن میں کشکول کا خیال آجاتا ہے اور آپ فوراً اس کو پہچان جاتے ہیں مگر وہ آپ کو دیکھنے کے باوجود نہیں پہچانتا نہ ہی وہ آپ کو پہچاننے کی ذرہ بھی کوئی کوشش کرتا ہے۔ وہ کون ہوسکتاہے ۔۔؟ آپ سوچتے ہوں گے بھکاری یا پولیس۔۔ لیکن نہیں وہ تو بھکاریوں اور پولیس سے بھی بڑھ کر ہے ۔۔؟ آپ کہتے ہوں گے پھر چور یا ڈاکو ہی ہوگا۔

۔ مگر نہیں چور اور ڈاکو تو رات کی تاریکی یا دن کی روشنی میں بھی چپکے سے اپنا کام کرتے ہیں۔۔ یہ تو نہ دن دیکھتا ہے نہ رات ۔۔ ان کو نہ تو روشنی کا خیال ہوتا ہے نہ ہی تاریکی کی کوئی فکر۔۔۔ یہ تو دن بارہ بجے جب سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آدھے آسمان پر ہوکر ہر کھائی اور سرنگ میں اپنی روشنی بکھیرتا ہے اس وقت بھی غریبوں اور مظلوموں پر سنگ باری کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

یہ بھکاری ہے نہ بیوپاری۔۔ چور ہے نہ ڈاکو۔۔ مگر کام میں تو ان سب کے بھی باپ ہیں۔ میرے سامنے اس وقت دو مناظر ہیں۔ پہلا منظر یہ کہ ایک شخص جس کی عمر کی کوئی قید نہیں وہ فقیر بھی نہیں اور بھکاری بھی نہیں۔۔ لیکن پھر بھی وہ آپ سے مانگنے کیلئے ہر پانچ سال بعد( اس سے پہلے بھی ممکن ہے) پانچ سال کی قید اس لئے لگائی کہ اگر پہلے نہ آئے تو 5 سال بعد ضرور آتا ہے۔

آپ کے دروازے پر پہنچ کر سب سے پہلے وہ احترام سے ایک طرف کھڑے ہوتے ہیں۔ کچھ دعائیں پڑھنے کے بعد اپنے اوپر پھونک مار کر آپ کے گھر کی گھنٹی بجاتا ہے۔ بل بجانے کے بعد وہ پھر دروازے کی ایک سائیڈ پر ہوکر احتراماً کھڑا ہو جاتا ہے۔ آپ جب دروازے پر پہنچ کر دروازہ کھولتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھ کر بہت خوش اور فوراً آپ سے گلے ملتا ہے۔ آپ اس کے گلے لگ کر اپنے تمام دکھ۔

۔ درد اور تکالیف بھول جاتے ہیں۔ کاغذ کی ایک پرچی جس کے آپ مالک ہوتے ہیں وہ حاصل کرنے کیلئے وہ شخص آپ کی منت سماجت شروع کرتا ہے۔ اس دوران وہ آپ کے پاؤں پکڑنے اور ہاتھ و ماتھا چومنے میں بھی دیر نہیں کرتا۔ فقیروں جیسی التجائیں اور حرکتیں دیکھ کر آپ کو اس پر رحم آجاتا ہے ۔پھر آپ نہ صرف وہ طاقت ور پرچی اس کو دینے کی یقین دہانی اور وعدہ کرتے ہیں بلکہ اس کی خوب خاطر اور خدمت بھی کر گزرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ وہ پرچی آپ سے لے کر وہ شخص چلا جاتا ہے۔ یہ تھا پہلا منظر۔ اب آتے ہیں دوسرے منظر کی طرف ۔۔۔ رشوت آپ کے پاس ہے نہیں۔ ۔۔ سفارش آپ کی کوئی کرتا نہیں۔ ۔۔ کمانے والا بھی آپ کااور کوئی نہیں ۔۔۔ بچے آپ کے ابھی چھوٹے اور بھائی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔۔۔ نواز شریف اور عمران خان کی طرح جائیداد تو آپ کی ہے نہیں کہ آپ بیوی۔۔ بچوں اور والدین کے ساتھ بیٹھ کر کھائیں ۔

۔۔ کوئی ذریعہ آمدن بھی آپ کی نہیں ۔۔۔ معصوم بچوں اور بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے اور گھر کا نظام چلانے کیلئے آپ کسی سے کچھ پیسے قرض لے کر سبزی یا فروٹ کی ریڑھی ڈالتے ہیں۔ گھر کا نظام چلانے کی خاطرہر روز تہجد کے وقت جب دنیا میٹھ نیند سوئی ہوتی ہے آپ اٹھ کر منڈی کا رخ کرتے ہیں۔ صبح سویرے وہاں سے سبزی یا فروٹ لا کر آپ ریڑھی پر اس کو بیچنا شروع کرتے ہیں۔

دکان یا جگہ کرائے پر لینے کی تو آپ کی طاقت نہیں۔ اس لئے آپ پابندی کے ساتھ شہر کے کسی چوک، چوراہے یا بازار میں ریڑھی لگا کر اپنا کام کرتے ہیں۔ تپتی دھوپ۔۔۔ تیز بارش ۔۔۔ آندھی و طوفان ۔۔۔ دکھ درد سمیت ہر تکلیف و مشقت برداشت کرنے کے بعد شام تک آپ اتنا کماتے ہیں کہ جس سے بمشکل آپ کا گزارہ چلتا ہے۔ آپ اس پر اللہ کا شکر ادا کرکے اپنے اس چھوٹے سے کاروبار میں برکت کیلئے دعائیں کرتے ہیں ۔

۔۔ بوڑھے والدین اور معصوم بچے آپ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں ۔اس ریڑھی سے جس طرح بھی ہوآپ کے گھرکاچولہاجلتاہے۔ایک دن آپ صبح سویرے منڈی سے سبزی وفروٹ لیکرپھراسی جگی پرریڑھی لگاتے ہیں ۔۔آپ ریڑھی کے قریب کھڑے ہوکرگاہگ کاانتظارکرتے ہیں کہ اچانک ایک شخص لاؤلشکرسمیت آپ پرحملہ آورہوتاہے۔آپ کی ریڑھی پرپڑے ٹماٹر،الو،پیاز،سیب،مالٹے،آم،امرودوغیرہ کووہ فٹبال یاکرکٹ کاگیندسمجھ کرپاؤں کی ٹھوکرسے ہوامیں اڑادیتاہے۔

آپ نظراٹھاکراس کی طرف دیکھتے ہیں ۔۔آپ کے ذہن کے بنددریچے یک دم کھلنے لگتے ہیں ۔وہ شخص آپ کا جانناپہچاناہوتاہے۔آپ سی پہلے نظرمیں اس کوپہچان لیتے ہیں۔۔یہ تووہی ہے جس کومیں نے طاقت والی پرچی دی تھی ۔۔ہاں ہاں یہ تووہی ہے۔۔ مگروہ شخص آپ کونہیں پہچانتا۔۔آپ اس کی منت ۔۔سماجت شروع کرتے ہیں ۔۔معصوم بچوں اوربوڑھے والدین کاواسطہ دے کرآپ اس سے جان کی آمان مانگتے ہیں ۔

۔آپ اس کے پاؤں تک پکڑتے ہیں مگروہ کسی حال میں آپ کوچھوڑنے پرتیارنہیں ہوتا۔۔وہ شخص کون ہے۔۔۔۔؟اب توآپ سمجھ اورپہچان گئے ہوں گے لیکن اگرپھربھی آپ کاحافظہ اتناکمزورہے تودماغ پرزوردینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔آپ ایک دن یاکچھ وقت کیلئے ایبٹ آبادآجائیں ۔۔شہرکے جس چوک اورچوراہے میں ریڑھی بان ہوں آپ ان کے پاس کھڑے ہوجائیں ۔وہ شخص نہیں بلکہ وہ اشخاص آپ کوچندلمحوں میں مل جائیں گے اوران کوپہچاننے میں آپ کودیربھی نہیں لگے گی ۔

کیونکہ ایبٹ آبادمیں وہ عوامی نمائندے جن کوغریبوں نے ووٹ کی پرچی دے کرکامیاب کرایا۔وہ آج انہی غریبوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔بلدیاتی ناظمین ۔۔۔۔ممبران ۔۔ایم این ایز۔۔ایم پی ایزعوام کے ووٹوں اورپرچیوں سے منتخب ہوکرہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ۔عوام کی طاقت سے اقتدارتک پہنچنے والوں کویہ ہرگززیب نہیں دیتاکہ یہ انہی عوام پرظلم کے پہاڑگرائیں ۔

۔غریبوں کی ریڑھیوں کوفٹبال کی طرح ہوامیں اڑانے اورغریب ریڑھی بانوں پرہاتھ اٹھانے والے آج یہ بھول گئے کہ یہ وہی غریب توہے جن کی یہ کل منتیں اورسماجتیں کرتے رہیں ۔ووٹ کی پرچی کیلئے غریبوں کے پاؤں پکڑنے والوں کوانہی غریبوں پرہاتھ اٹھاتے ہوئے کچھ شرم توکرنی چاہئے۔خاندانی لوگ اس طرح کے کام نہیں کرتے ۔۔پھرمنتخب ممبران عوام کے نمائندے ہوتے ہیں ۔

۔ان کاکام عوامی مسائل میں اضافہ کرنانہیں ۔مسائل کوحل کرناہوتاہے۔ ایبٹ آبادسمیت ملک بھرمیں غریبوں کے پیچھے پڑنے والے بلدیاتی ناظمین اورممبران اسمبلی کوایک منٹ کیلئے اپنے گریبان میں ضرورجھانکناچاہئے کہ وہ جوکچھ کررہے ہیں کیااس سے اس پرچی کاحق اداہورہاہے جوان کوان غریبوں نے دی ہے۔۔وہ پرچی کاعذکاایک ٹکرانہیں بہت بڑی طاقت تھی ۔۔اسی کے بل بوتے پرتویہ احسان فراموش آج ناظم،ایم این اے اورایم پی اے بنے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :