تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے ۔۔۔۔۔۔؟

جمعرات 31 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ایک انسان کو اگر خود اپنی عزت کا احساس نہیں تو باقی لوگ کب تک اس کی عزت کا خیال اور احساس کرتے رہیں گے ۔۔؟ ضمیر فروشوں کے ہاں تو واقعی بے غیرتی کی کوئی حد نہیں لیکن برداشت کی آخر کوئی نہ کوئی حدضرور ہوتی ہے۔۔ پاکستانی قوم نے یقینابہت برداشت کیا۔۔ حد سے بھی زیادہ برداشت کا مظاہرہ کیا۔۔صرف اس لئے کہ شائد یہ ضمیر فروش کسی نہ کسی طرح راہ راست پر آجائے مگر افسوس غیرت کے ان دشمنوں کو اپنی عزت ذرہ بھی راس نہیں آئی۔

ہماری جگہ اگر کوئی اور لوگ ہوتے تو وہ کب کے ہٹلر بن کر ان ضمیر فروشوں کو دن میں تارے دکھا دیتے۔۔ ان کو بھی شائد کسی ہٹلر کی ہی تلاش ہے کہ یہ بے غیرتی پر بے غیرتی کا مظاہرہ کرکے دنیا کے سامنے خود کو ذلیل و رسوا کررہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے قوم کے جذبات اور احساسات کا جس طرح خون کیا وہ کسی ظلم سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

وہ غریب لوگ جو دیہاڑی لگا کر مشکل سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں وہ جب کام کاج چھوڑ کر خالی پیٹ یہ خواہش لیکر ٹی وی کے آگے بیٹھ کر میچ دیکھیں کہ قومی ٹیم میچ جیتے گی۔

۔ قومی ٹیم کے کھلاڑی پھر وہ تیر ماریں کہ شکست کے علاوہ کچھ ہاتھ ہی نہ آئے تو خود سوچیں ان غریبوں کے دلوں پر کیا گزرے گی ۔۔؟ ہمارے ملک کے یہ سادہ لوگ کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت اور قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں سے حد سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ ایشیا کپ ہو ۔۔ ورلڈ کپ ہو۔۔ شارجہ کپ ہو یا پھر کسی ٹیم سے کوئی سیریز ۔۔ جب بھی پاکستان کا میچ ہوتا ہے کراچی سے گلگت اور مکران سے سوات تک پورے ملک میں لوگ اپنے سارے کام کاج چھوڑ کر میچ دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔

میچ دیکھنے والوں میں چھوٹے، بڑے اور امیر و غریب کی کوئی تفریق و تمیز بھی نہیں ہوتی۔ چھوٹے ہوں یا بڑے۔۔ بوڑھے ہوں یا جوان۔۔ مرد ہوں یا خواتین سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ اور ایک ہی صدا ہوتی ہے کہ جیتے گا بھائی جیتے گا، پاکستان جیتے گا۔ لیکن جب غیرت سے خالی ان مجسموں کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کو شکست ہوتی ہے تو اس وقت پھر ان بچوں۔۔ جوانوں۔

۔بوڑھوں۔۔مرد اور خواتین کے چہروں پر افسوس اور مایوسی کے جو آثار ہوتے ہیں اسے دیکھ کر ایک ظالم اور سنگدل شخص بھی اپنے آنسوروک نہیں پاتے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلے بھارت ، پھر نیوزی لینڈ اور آخر میں آسٹریلیا کے ہاتھوں قومی کرکٹ ٹیم کی دھلائی سے کتنے دل شیشے کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرے ۔۔؟ کتنی آنکھیں نم اور کتنے چہرے اداس ہوئے۔۔؟ یہ سوچ کر بھی دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ آفریدی الیون نے نہ ماضی سے کچھ سبق سیکھا ۔

۔نہ ہی حال سے بے حال ہونے کو بچایا۔ بھاری تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں ۔۔ عیش و عشرت کیلئے سامان بھی بے انتہا۔۔ پوچھ گچھ بھی کسی کی نہیں ۔۔ایسے میں جیتیں یا ہاریں ہمیں کیا ۔۔؟ اسی سوچ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو منزل سے دور اتنا دور کیا کہ بھارت کے بعد نیوزی لینڈ اور پھر آسٹریلیا کے گوروں نے بھی چڑھائی کا موقع کسی طرح ضائع نہیں ہونے دیا۔

آسٹریلیا سے آفریدی الیون کی شکست کے اگلے روز صبح سویرے جونہی میں گھر سے آفس کیلئے نکلا ۔۔پڑوسیوں کا چھوٹاسا بچہ معصومانہ چہرہ لئے پہلے سے ہی میری راہ تک رہا تھا جونہی میں پاس سے گزرنے لگا۔ میرے قریب ہوکر توتلی زبان میں پوچھنے لگا ۔ انکل رات کو میچ کون جیتا ۔۔؟ یہ سن کر میرے دل کی دھڑکنیں پھر تیز اور پاکستانی شکست کا غم دوبارہ تازہ ہونے لگا۔

سوچا اس معصوم بچے کو کیسے بتاؤں کہ پیار کے بدلے میں ہمیشہ دکھ ۔۔ درد اور غم ہی ملتا ہے۔ ہم جن سے پیار کرتے ہیں انہوں نے ایک بار پھر آسٹریلیا سے شکست کی صورت میں ہمیں غم دے دیا ہے۔ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں اس کا معصوم دل نہ دکھے میں بات کو گپ شپ میں گھما پھرا کروہاں سے گزر تو گیا لیکن بعد میں پھر کافی دیر تک سوچتا رہا کہ ان جیسے کتنے ننھے منھے اور معصوم بچے پاکستانی جیت کی آرزو اور امید لگا کر میچ دیکھتے ہوں گے لیکن جب ان میچوں میں پاکستان کو اس طرح شکست ہوتی ہے تو پھر ان بچوں کے دلوں پر کیا گزرے گی ۔

۔؟ کرکٹ ٹیم کی پے در پے شکستوں اور پٹائی سے تو ہمارے حکمرانوں اور کھلاڑیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اپنوں کی اس پٹائی سے ان معصوم بچوں پر کیا اثر پڑے گا ۔۔؟ اس بارے میں تو کوئی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا لیکن اس نقطے کو سنجیدگی کے ساتھ لینا ضروری ہے کیونکہ ہر اچھے اور برے دونوں کاموں کا بچوں پر کوئی نہ کوئی اثر تو پڑتاہی ہے ۔

۔ قومی کرکٹ ٹیم شکست کے خول سے نکلے یا نہ ۔۔؟ لیکن ہمیں اپنے ان معصوم اور چھوٹے بچوں کو شکست کے سائے سے بچانے کیلئے اقدامات ضرور اٹھانے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہمیں تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے کے فارمولے کو بھی اب تبدیل کرنا ہوگا۔ جو لوگ ایک بار نہیں بار بار ملک کی بدنامی اور بے عزتی کا باعث بنے ان سے پیار نہیں پھر نفرت کی جاتی ہے۔

دنیا کا اصول ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو اگر 19 کروڑ عوام کی عزت کا احساس اور خیال نہیں تو پھر عوام کو ان کی عزت کا خیال کیونکر ہو۔۔؟ مانا کہ اپنا مفاد ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے لیکن جب ملکی اور اجتماعی مفاد کی بات ہوتو پھر اپنا مفادبھی قربان کرنا پڑتا ہے لیکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو اپنے مفاد کے علاوہ کسی چیز کی کوئی فکر نہیں۔

دولت کمانے کے چکر اور کپتان بننے کے خواب دیکھتے دیکھتے قومی کرکٹرز ملک و قوم کی عزت اور وقار بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ آج ان کھلاڑیوں کو اپنے مفاد اور کپتان بننے کی فکر تو ہے مگر ملک کے 19 کروڑ عوام کی عزت، جذبات اور احساسات کی کوئی پرواہ نہیں۔ کروڑوں عوام کے دل دکھانے میں کھلاڑیوں کے ساتھ حکمران بھی برابر کے شریک ہیں۔ جس طرح چور چور کا احتساب نہیں کر سکتا اسی طرح ضمیر فروش ضمیر فروشوں کا بھی محاسبہ نہیں کر سکتے۔

اس لئے ضمیر فروش حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان ضمیر فروشوں کو راہ راست پر لے آئیں گے ۔وقت کے ضیاع اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ حکمرانوں کی نگرانی میں اس سے پہلے بھی اس طرح کی شکستوں پر ایک دو نہیں کئی کمیشن بنے لیکن ان کا آج تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ کرکٹ کی تباہی کا آغاز تو حکومت نے ہی کیا ہے اب ایسے میں کیا وہ اپنا احتساب خود کرے گی۔

۔؟ 19 کروڑ عوام کے دل دکھانے اور سرشرم سے جھکانے پر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی پے در پے شکستوں کی تحقیقات کرکے ضمیر فروشوں اور ظالموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے تاکہ عوام کے دلوں پر لگنے والے زخم مندمل ہو سکے ورنہ کل کو پھر یہی کھلاڑی عوام کی عزت نیلام کرنے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :