کابل، 25 ہزار افراد کا فوجی کمانڈروں اورجنگجوؤں کی معافی کیلئے مظاہرہ، امریکہ ”مردہ باد“ کے نعرے۔ مظاہرین کی عام معافی کے حق میں نعرے بازی، کابل کا نیشنل سٹیڈیم مظاہرین سے بھر گیا، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سابق مجاہدین کی بڑی تعداد میں شرکت

جمعہ 23 فروری 2007 19:38

کابل، 25 ہزار افراد کا فوجی کمانڈروں اورجنگجوؤں کی معافی کیلئے مظاہرہ، ..
کابل (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین23فروری2007 ) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعہ کے روز تقریباً پچیس ہزار افراد نے ان فوجی کمانڈروں اور جنگجووٴں کے لیے عام معافی کے حق میں مظاہرہ کیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔مظاہرین نے ان افراد کے لیے عام معافی کی حمایت میں نعرہ بازی کی۔کابل کا نیشنل سٹیڈیم مظاہرین سے بھرا ہوا تھا اور وہ ان مجاہدین رہنماوٴں کے حق میں نعرہ بازی کر رہے تھے جو اسّی کی دہائی میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف لڑے اور بعد میں خانہ جنگی میں حصہ لیا۔

مظاہرین میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے علاوہ سابق مجاہدین کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مجاہدین کے ایک رہنما عبدالرسول سیاف نے کہا ’جو لوگ مجاہدین کے خلاف بات کرتے ہیں وہ اسلام اور اس ملک کے دشمن ہیں۔

(جاری ہے)

عبدالرسول سیاف ان کئی کمانڈروں میں سے ایک ہیں جن پر خانہ جنگی کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے۔ مظاہرین ایسے لوگوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رہے تھے جو ماضی کے جنگجووٴں کے خلاف مقدمے قائم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ جنگجووٴں، جن میں چند افغانستان کی نئی حکومت بھی شامل ہیں، کے خلاف مقدمات چلائے جانے چاہئیں۔رواں ہفتے کے اوائل میں افغانستان کی پارلیمان نے مذکورہ افراد کے لیے عام معافی کا ایک بِل منظور کیا لیکن صدر حامد کرزئی کے ترجمان نے بعد میں اشارہ دیا تھا کہ وہ پارلیمان کے اس اقدام کو غیر آئینی سمجھتے ہیں۔

اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس بِل پر شدید تنقید کی ہے۔ جلسے کے بعد نوجوان مظاہرین نے کابل کی سڑکوں اور گلیوں میں مارچ کیا۔ اس موقع پر وہ ’افغانستان کے دشمن مردہ باد‘ ’امریکہ مردہ باد‘ اور ’ملالائی جویا مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ واضح رہے کہ ملالائی جویا پارلیمان کی ان خاتون رکن کا نام ہے جو عبدالرسول سیاف اور مجاہدین کے دیگر بڑے رہنماوٴں پر شدید تنقید کے لیے مشہور ہیں۔

مظاہرے میں حکومت اور پارلیمان کے جن چیدہ چیدہ ارکان نے شرکت کی ان میں عبدالرسول سیاف کے علاوہ ملک کے نائب صدر کریم خلیلی، حامد کرزئی کے سینیئر سکیورٹی مشیر محمد قاسم فہیم، فوج کے ایک چیف آف سٹاف عبدالرشید دوستم، توانائی کے وزیر اسماعیل خان اور سابق صدر برہان الدین ربانی بھی شامل تھے۔سوویت یونین کے خلاف جنگ مجاہدین کی جنگ میں دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد مجاہدین کے مختلف دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی اور اس کے بعد طالبان کے دور حکومت کے دوران مجموعی طور پر ہزاروں لوگ مارے گئے۔

مجاہدین اور دیگر جنگجووٴں کے درمیان لڑائیوں میں صرف کابل میں اسّی ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ گزشتہ ہفتے پارلیمان سے عام معافی کا بِل منظور کرنے والے کچھ ارکان کا اب کہنا ہے کہ جب وہ بِل کے حق میں ووٹ دے رہے تھے اس وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔افغانستان میں عام معافی کے حامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صلح اور باہمی تعلقات میں بہتری کی جانب ایک قدم ہوگا اور اگر عام معافی نہیں دی جاتی تو ملک میں مزید لڑائی ہوگی۔دوسری جانب اقوام متحدہ اور افغانستان میں انسانی حقوق کی بڑی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جنگی جرائم میں معافی کے فیصلے کا حق صرف ان لوگوں کو ہے جو ان ان جرائم سے متاثر ہوئے۔

متعلقہ عنوان :