سپریم کورٹ نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین کے اغواء کے واقعے کا از خود نوٹس لے لیا، کوئی قانون سے بالاتر نہیں ، ہر ملوث شخص کے خلاف کارروائی کریں گے، حساس ایجنسیاں بھی سپریم کورٹ کو جواب دہ ہیں،جسٹس جاوید اقبال کے ریمارکس،254میں سے 102 لاپتہ افراد کا سراغ مل گیا ،ڈپٹی اٹارنی جنرل۔تفصیلی خبر

بدھ 6 جون 2007 18:36

سپریم کورٹ نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے شاہ زین کے اغواء کے واقعے کا از ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6جون۔2007ء) سپریم کورٹ نے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم کے پوتے شاہ زین کے اغواء کے واقعے کا از خود نوٹس لے لیا جبکہ وزارت داخلہ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 254میں سے 102 لاپتہ افراد کا سراغ مل گیا ہے جبکہ لاپتہ افراد کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ، ہر ملوث شخص کے خلاف کارروائی کریں گے، حساس ایجنسیاں بھی سپریم کورٹ کو جواب دہ ہیں۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ادا کئے ہیں ۔ مزید سماعت 20جون کو ہو گی جبکہ لاپتہ افراد کیس کا تفصیلی حکم آج جمعرات کو جاری کیاجائے گا۔

(جاری ہے)

ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے رپورٹ پیش کی کہ چار مزید افراد کا سراغ مل گیا ہے جن میں سے شیر احمد خان اور محمد جان محسود ڈیرہ اسماعیل خان بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے باعث گرفتار ہیں جبکہ افضل دلبر اور شبیر ترادو اپنے گھر پہنچ چکے ہیں اس طرح 254 میں سے 102 افراد کا سراغ مل گیا ہے۔

جس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اگر آپ نے اس طرح قسطوں میں کام جاری رکھا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ لاپتہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے یہ قابل تعریف پیش رفت نہیں ہے۔ ملک کے آئین و قانون میں جب Provisions موجود ہیں تو آپ ان سے متصادم کام کیوں کرتے ہیں ، آپ نے بڑا آسان طریقہ نکالا ہوا ہے کہ ہر پیشی پر چار پانچ نئے بندوں کا سراغ لگانے کا بتا کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔

وزارت داخلہ ان افراد کے بارے میں کیا کہتی ہے جن کے بارے میں پہلے کہا گیا کہ وہ انکے پاس نہیں اب ان کے پاس سے یہ افراد کیسے نکل آئے۔ اس پر وزارت داخلہ کے افسر کرنل جاوید اقبال لودھی نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن فہرستیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ سمجھنا مشکل ہے ہم ہیومن رائٹس کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں لیکن ان کا رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ یہ بہت حساس معاملہ ہے ہم تکنیکی بنیادوں پر نہیں جائیں گے ۔ لاپتہ افراد کے ورثاء کا احساس کرتے ہوئے انہیں بازیاب کرایا جائے۔ قانونی موشگافیاں بعد میں دیکھی جا سکتی ہیں اس پر کرنل لودھی نے کہاکہ جس شخص کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے اس کی بازیابی کیلئے کوشش کی جاتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ ہر صوبے میں آئی جی اور وفاق میں سیکرٹری داخلہ اور دفاع موجود ہیں۔

ان کا کام ہے کہ باہمی رابطے سے یہ کام آگے بڑھائیں ۔ ہمیں روزانہ 10 سے 12 خطوط مل رہے ہیں جن میں اکثریت بلوچستان کے لوگوں کی ہے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ہر ملوث شخص کے خلاف کارروائی کریں گے۔ یہ محض زبانی بات نہیں عملاً کام کریں گے۔ ملوث افسران اسے عمومی انداز میں مت لیں جب کارروائی شروع ہو گی تو کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو گی۔

اب ذمہ داروں کا تعین ہو جانا چاہیے اس مرحلہ پر عتیق الرحمان کے وکیل اکرام چوہدری نے اٹھ کر کہا کہ حکومت کے سینئر افسران بے بس ہیں۔وہ ہماری مدد کرنے کے قابل نہیں چاروں صوبائی داخلہ سیکرٹری طلب کر کے ان سے رپورٹ مانگیں۔ عدالت نے پہلے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو طلب کیا۔ پہلے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ ہے، ذمہ داری کا تعین اور کارروائی بعد میں ہو گی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے فیصل فراز کے بارے میں بتایا کہ اس کے اور مسعود جنجوعہ کے متعلق یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ وہ راولپنڈی سے پشاور گئے تھے ہم نے پشاور تبلیغی مارکز سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس صرف چار ماہ کا ریکارڈ ہوتا ہے جو صرف مقامی افراد سے متعلق ہے۔ باہر کے لوگوں کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ فیصل فراز نے اپنے عزیزاصغر چیمہ کو سہ پہر چار بجے چابیاں دی تھیں۔

راولپنڈی بس سٹاپ پر مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ ان دونوں کا عبدالغنی نامی شخص سے رابطہ تھا جو سول سیکرٹریٹ پشاو رمیں کمپیوٹر آپریٹر ہے اس نے تصدیق کی ہے کہ وہ انہیں تبلیغ کیلئے پشاور لایا تھا اس کے بعد وہ کہاں گئے کچھ علم نہیں اس پر لاہور کے تفتیشی افسر بابر بخت نے کہاکہ ہم اس بارے میں مزید چھان بینکر رہے ہیں اور دوبارہ ٹیم بھجوائیں گے۔

اس پر آمنہ مسعود نے عدالت میں ایک بیان حلفی دیا کہ مسعود جنجوعہ کو پہلے پشاور موڑ اسلام آباد لایا گیا پھر کراچی آئی ایس آئی کے دفتر ناظم آباد اور بعد میں کورنگی لے گئے پھر چکلالہ راولپنڈی پھر شوکت قلعہ کشمیر کراچی منتقل کر دیا گیا۔ وہاں کرنل حبیب اللہ انچارج تھا۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ کے استفسار پر آمنہ نے بتایا کہ وہ آئی ایس آئی اسلام آباد کا افسر ہے ۔

شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ 501 ورکشاپ چکلالہ آئی ایس آئی کا سیف ہاؤس ہے جہاں اب بھی بڑی تعداد میں لوگ رکھے گئے ہیں ۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ یہ جگہ ہم سے زیادہ دور نہیں ہے۔ انہوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہاکہ اسے نوٹ کر لیں ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے حافظ عبدالباسط کے بارے میں بتایا کہ وہ پہلے فیصل آباد پولیس کی تحویل میں تھا بعد میں اسے فوج کے کیپٹن عامر کے حوالے کر دیا گیا۔

جسٹس ڈوگر نے کرنل لودھی سے پوچھا کہ آپ نے اس بارے میں ایم آئی سے استفسار کیا ہے جس پر کرنل لودھی نے جواب دیا کہ ہم نے اس حوالے سے فوج کو خط لکھ دیا ہے۔ اگلی پیشی پر مفصل معلومات مل جائیں گی۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ یہ شخص 2004ء سے ایم آئی کے پاس ہے آپ ابھی تک معلومات نہیں لے سکے۔ انہوں نے کہا کہ جن کے ٹھکانے کا علم ہے آپ کو انہیں پیش کرنا ہو گا۔

حافظ عبدالباسط کے ماموں نے کہا کہ فوج کے میجر علی اسلام آباد بلیو ایریا میں میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک نامعلوم جگہ لے گئے ۔ 45منٹ بعد چھوڑا گیا وہاں میری ملاقات حافظ عبدالباسط سے کرائی گئی جو بہت بری حالت میں تھا۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ حافظ عبدالباسط کو اگلی پیشی پر پیش کیا جائے جس پر کرنل لودھی نے کہاکہ ابھی ہم اس سرٹیفکیٹ کی تصدیق کر رہے ہیں جسٹس جاوید نے کہاکہ پولیس گرفتار شخص کو کسی ایرے غیرے کے حوالے کس طرح کر سکتی ہے۔

پاکستان میں کتنی ایجنسیاں کام کر رہی ہیں ۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ ہم اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے حکم دیا کہ فیصل آباد کے ڈی پی او کو طلب کیاجائے جس نے باسط کو فوج کے حوالے کیا۔ جسٹس ڈوگر نے کہاکہ آپ یہ کیوں نہیں بتا دیتے کہ کیا اس کا کورٹ مارشل تو نہیں ہو رہا۔ جسٹس جاوید نے کہا کہ آپ فائلوں کاپلندہ لے کر آ جاتے ہیں ایک آرمی کیپٹن کا سراغ نہیں مل سکتا۔

کرنل لودھی نے کہاکہ وزارت داخلہ ان کا پتہ چلا رہی ہے اکرام چوہدری ایڈووکیٹ ن یکہا کہ ہائی کورٹ میں ایجنسیاں متعلقہ افراد کے حوالے سے لفٹ ہی نہیں کراتیں اس لئے مقدمات خارج ہو جاتے ہیں ۔ جسٹس ڈوگر نے کہاکہ جب سپریم کورٹ اس معاملہ کو دیکھ رہی ہے تو آپ ہائی کورٹ کیوں جا رہے ہیں آپ کی وجہ سے سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے ۔ جسٹس فلک شیر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو اختیار حاصل ہے ۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ عتیق الرحمان کے بارے میں بیان حلفی آئندہ پیشی پر داخل کر دیاجائے گا۔ ڈی پی او ایبٹ آباد نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم نے پانچ اراد کا بیان لیا ہے۔ عتیق کے ایک دوست عقیل الرحمان پر شک ہو رہا ہے کیونکہ یہ دونوں ایک ہی لڑکی کو چاہتے تھے۔ عقیل پر اسی لئے اسے غائب کرنے کا شبہ ہے۔ اکرام چوہدری نے کہاکہ پولیس نے پہلے خود کہا کہ یہ ایجنسیوں کے پاس ہے۔

عتیق نیلور لیبارٹریز میں سائنسدان ہے اس کے دفتر والوں نے گمشدگی کا اشتہار بھی شائع کرایا تاہم بعد میں انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی تھی کہ عتیق ایجنسیوں کے پاس ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہیں وہ لاپتہ نہیں رہے ان کی فہرست عدالت کو دی جائے۔ عتیق الرحمان کی رہائی کیلئے کام کیا جائے۔ ۔ عمران منیر کے وکیل مجیب پیرزادہ نے کہا کہممبران پر کی االزامات ، ڈٹی اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس پر الزامات کا علم نہیں ہو سکا۔

فیلڈ کورٹ مارشل نے سمری داخل کی ہوئی ہے ۔ جسٹس جاوید نے کہاکہ اس کا کیس کہاں سماعت ہو رہا ہے یہ دس ماہ سے آپ کے پاس ہے۔ ابھی تک سماعت نہیں ہو پائی ۔ مجیب پیرزادہ نے کہاکہ ہم کہاں جائیں سر اٹھا کر جی بھی نہیں سکتے۔ فوج جو چاہتی ہے کرتی ہے اگر اس ملک نے باقی رہنا ہے تو آئین اور قانون کی حکمرانی لانا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9,4 اور 184(3) کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اس پر جسٹس فلک شیر نے کہاکہ آپ نے بھی تو آرٹیکل 270-AA منظور کرایا تھا اس کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔

مجیب پیرزادہ کو مخاطب کر کے جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ہم آپ کی توجہ پارلیمنٹ کے کردار کیطرف دلانا چاہتے ہیں جس نے کبھی کوئی مناسب قانون نہیں بنایا۔ جسٹس فلک شیر نے کہاکہ اپیل کا حق بھی عدالتوں نے دیا۔ پارلیمنٹ نے کیا کیا۔ جسٹس جاوید نے کہاکہ سپریم کورٹ کے پاس جتنے اختیارات ہیں اس نے استعمال کئے ہیں اور کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔

ایک ادارے کا دوسرے کا مورد الزام ٹھہرانا ٹھیک نہیں جو آپ پارلیمنٹ میں کر سکتیہیں ۔ وہ ہم یہاں سپریم کورٹ میں بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔ آئین کے آرٹیکل 187 اور 184(3) کے تحت ہر ایجنسی ہمارے ماتحت ہے ہم لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کرنل لودھی سے کہا کہ ابھی سمری پیش ہونے دیں پھر اس حوالے سے کچھ بتا سکیں گے۔ اکرام چوہدری نے کہاکہ یہ ڈیڈ باڈی چاہتے ہیں پہلے بھی ایک شخص مر چکا ہے جسٹس جاوید اقبال نے حکم دیا کہ عمران کی میڈیکل رپورٹ پیش کی جائے جب آئین کا آرٹیکل 10 ادہر ادھر ہوتا ہے تو لوگ مٹھائیاں بانٹنے نکل آتے ہیں قوم کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کب باہر نکلنا ہے۔

انہوں نے حکم دیا کہ عمران کی بہنوں کی اس سے ملاقات کرائی جائے اور طبی حالت کی رپورٹ دی جائے ۔ اسے وکیل سے بھی ملوایا جائے۔ اگر آرمی ایکٹ قانونی معاونت فراہم کرنے کی اجازت دیتا ہے تو آپ کیوں رکاوٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے قائد ایوان سینٹ وسیم سجاد کے بارے میں کہا کہ وہ کمرہ عدلت میں ہیں سبھی کچھ کریں جب پارلیمنٹ میں کوئی معاملہ آتا ہے تو کورم ہی پورا نہیں ہوتا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کھوکھر نے بتایا کہ قاری عبید اللہ نامی شخص آرمی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا جسے رہا کر دیا گیاہے جس پر شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ اس ایکٹ کے تحت تو گرفتاری کا حکم جاری ہی نہیں ہو سکتا۔ جسٹس فلک شیر نے پوچھا کہ اسے کب رہا کیا گیا جس کے بارے میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد دو لاپتہ افراد عاطف جاوید اور حافظ ادریس عباسی سے متعلق ڈپٹی اٹارنی جنرل نے مزیدسماعت طلب کی تو جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ اس حوالے سے ڈی پی او فیصل آباد تفصیلی رپورٹ پیش کریں ۔

سعود میمن کے بارے میں بتایا کہ وہ فوت ہو چکا ہے جبکہ داؤد مینگل کے بارے میں ڈی اے جی نے بتایا کہ وہ کراچی میں ہے لیکن بہت سے داؤد ہیں کس کو لائیں جس پر جسٹس فلک شیر نے کہاکہ کسی کو بھی داؤد مینگل بنا کر لے آئیں اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا میں تمام داؤد لے آؤں جسٹس فلک شیر نے کہاکہ تمام کو لے آئیں ۔ جسٹس جاوید نے کہا کہ آپ نے چاروں صوبوں سے مساویانہ سلوک کیا او رسب جگہ سے بندے لاپتہ ہیں ۔

انہوں نے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر سے پوچھا جب آپ نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا تو اس کا کیا بنا تھا جس پر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میں نے وزارت دفاع سے استفسار کیا تھا کہ ایجنسیوں کے دائرہ اختیار کے بارے میں آئین اور قانون سے آگاہ کیا جائے لیکن قانون بنانے کی بجائے تحریری طور پر بتایا کہ یہ حساس معاملہ ہے جس کا تعلق ملکی سالمیت سے ہے۔

اس کا جواب پارلیمنٹ میں نہین دیا جا سکتا۔ تحریری طور پر کسی ادارے سے نہیں پوچھا گیا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت کام کرتی ہے ان کے سربراہان سے بھی بیان حلفی لیا جائے۔ جسٹس جاوید نے کہاکہ اگر ایک مرتبہ ان سے بیان ح لیا تو وہ ہر معاملہ پر بری الذمہ ہو جائیں گے۔ حتمی حکم دور نہیں ہے یہ خطرناک پوزیشن ہے ہماری کوشش ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری طریقے سے جتنے لاپتہ افراد بازیاب ہو سکتے ہیں انہیں بازیب کرایاجائے۔

کوئی بھی ایجنسی ماورائے آئین اقدام نہیں کر سکتی سارا الزام ایجنسیوں پر نہ لگائیں کئی جہاد کے شوق میں غائب ہوئے کئی قریبی ممالک کی جیلوں میں ہیں۔ نعیم نو رخان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ دو وفاقی وزراء شیخ رشید اور فیصل صالح حیات نے میرے موکل کی تحویل کی تصدیق کی تھی اسے امریکہ کے کہنے پر گرفتار کیا گیا اس پر 50لاکھ ڈالر کا انعقاد تھا لیکن اسے امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی نعیم نور کی تحویل کی تصدیق کی۔ اگر سیکرٹری داخلہ انکار کریں تو ان وزراء سے بھی پوچھا جا سکتاہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ وزارت داخلہ کے چاہنے سے کچھ نہیں ہو گا ہم ہی بلائیں گے۔ اس بارے میں تفصیلی حکم جاری کریں گے ۔ انسانی حقوق کمیشن کے وکیل اقبال حیدر نے عدالت کو بتایا کہ طلال بگٹی کے بیٹے شاہ زین کو 2جون کو اغواء کیا گیا جو اکبر بگٹی کا پوتا ہے اس پر بھی از خود نوٹس لیا جائے جس پر عدالت نے اس درخواست کو از خود نوٹس کے تحت پٹیشن میں تبدیل کر دیا۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ ہم آپ کے کہنے پر آپ کا کام کر رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی ابتداء آپ کے دور حکومت میں ہوئی ۔ اقبال حیدر نے ڈان کی ایک خبر کے حوالے سے بتایا کہ عبدالوحید قمبر نامی شخص کو ایجنسیوں نے اٹھایا اس کی بیٹی شیری نے اس بارے میں پریس کانفرنس کر کے یہ اطلاع عام کی آپ اس کا بھی نوٹس لیں ۔ انہوں نے کہاکہ مری قبائل کے دو افراد غلام قادر اور خان محمد دونوں بھائی 16 اپریل2007ء کو اٹھائے گئے۔

جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ ہم نے ان سب کے حوالے سے از خود نوٹس لے لیا ہے۔ علی اصغر بنگلزئی نامی لاپتہ شخص کے وکیل منیر پراچہ نے پیش ہو کر بتایا کہ ان کے موکل کو اکتوبر 2001ء میں غائب کیا جو کہ ابھی تک لاپتہ ہے۔ جس پر جسٹس جاوید اقبال نے کہاکہ وہ اس پربھی حکم جاری کریں گے۔ ا نہوں نے کہا کہ بھارت کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک میں مستحکم حکومتیں نہیں ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ افراد کسی ”وار لارڈ ،،کی قید میں ہوں۔ حمید پراچہ نے کہا کہ ڈیرہ بگٹی کے ضلعی ناظم کو 29نومبر 2006ء میں اٹھایا گیا جسٹس جاوید اقبال نے حکم دیا کہ اس کا بھی پتہ کرایاجائے۔ اس کے بعد سماعت 20جون تک ملتوی کر دی گئی جبکہ اس حوالے سے تفصیلی حکم آج جمعرات کوجاری کیا جائے گا۔