بینظیر نے مشرف سے ڈیل کی تو پرانے کارکنوں کو ساتھ ملا کر راستہ روکیں گے ۔غلام مصطفی کھر ۔۔مشرف کیساتھ بینظیر کی ڈیل جمہوریت پر خودکش حملہ ہے‘ بینظیر کے اقدامات سے کارکن شرمسار ہیں‘ بینظیر نے عوامی تحریک سبوتاژ کیا ہے‘ بی بی سی کو انٹرویو

جمعرات 2 اگست 2007 12:11

بینظیر نے مشرف سے ڈیل کی تو پرانے کارکنوں کو ساتھ ملا کر راستہ روکیں ..
لندن (ٍٍاردوپوانئٹ اخبار تازہ ترین02 اگست 2007) پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما و سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ بینظیر کی ڈیل جہوریت پر خودکش حملہ ہے‘ بینظیر بھٹو نے ڈیل کی تو پرانے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ مل کر ان کا راستہ روکیں گے‘ بینظیر کے حالیہ اقدام سے کارکن شرمسار ہیں اور وہ عام عام آدمی کا سامنا نہیں کرپارہے ہیں‘ چیف جسٹس کے ساتھ کراچی سے خیبر تک عوام نے چل کر فیصلہ دیدیا ہے کہ انہیں صرف جمہوریت چاہئے‘ بینظیر نے ڈیل کرکے عوامی تحریک کو سبوتاژ کیا ہے۔

بی بی سی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں غلام مصطفی کھر نے کہا کہ اگر بینظیر بھٹو نے صدر جنرل پرویز مشرف سے مفاہمت کی تو عام انتخابات میں وہ ان کی مکمل مخالفت کریں گے اور پیپلز پارٹی میں موجود اپنے پرانے ساتھیوں اور کارکنوں کو ساتھ ملا کر ان کا راستہ روکیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بے نظیر کی صدر مشرف سے ڈیل دراصل جمہوریت پر ایک خودکش حملہ ہے جو پوری قوم کے لیے ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے نظیر اور مشرف کی ڈیل کا راستہ روکنے کے لیے جوکچھ بھی ان سے بن پڑے گا کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں انہوں نے پارٹی کے کارکنوں اور اپنے دیرینہ ساتھیوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ ا انہوں نے کہا کہ پارٹی کے کارکن خود سے بھی ان سے رابطے کر رہے ہیں۔ مصطفی کھر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا کارکن شرمسار ہے اور وہ عام آدمی کا سامنا نہیں کر پا رہا۔

انہوں نے کہا کہ وہ بینظیر کے ذاتی طور پر مخالف نہیں ہیں اور’اگر صدر مشرف سے رابطوں میں کوئی ایسی مصلحت ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آرہی تو بینظیر ہمیں کیوں سمجھا نہیں دیتیں؟وہ قوم کو قربانیاں دینے والے اپنی پارٹی کارکنوں کو کھل کر کیوں نہیں بتا دیتیں کہ ان کی صدر مشرف سے کیا بات چل رہی ہے اور اس میں ملک و قوم اور پارٹی کا کیا مفاد ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ پہلی بار کراچی سے خیبر تک چیف جسٹس کے قافلے کے ساتھ چل کر پوری قوم نے فیصلہ سنایا تھا کہ انہیں صرف جمہوریت چاہیے۔

پورے ملک میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی کہ گومشرف گو لیکن بے نظیر نے ڈیل کی بات کرکے عوام کی اس تحریک کو سبوتاڑ کیا ہے۔سابق گورنر غلام مصطفی کھر نے کہا کہ بے نظیر کے اس فیصلے سے خود پیپلز پارٹی کو دھچکا پہنچا ہے۔ان کے بقول حالات جس نہج پر جا رہے تھے پیپلز پارٹی کے اقتدارمیں آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور انتخابات میں بلاشبہ اسے سب سے زیادہ ووٹ ملنے تھے لیکن اب اس کے ووٹ بنک میں بہت کمی ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے نظیر جس طریقے سے صدر مشرف سے بات چلا رہی ہیں اس کی پوری قوم کو سمجھ نہیں آرہی،وہ مذاکرات کرنے گئیں تو اپنے ساتھ پارٹی کے لوگوں کی بجائے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو لے گئیں۔انہوں نے کہا کہ بینظیر اگر صدر مشرف سے تعاون کر کے آئیں یا انہوں نے پرویز مشرف کو وردی یا بغیر وردی میں صدر قبول کیا تو وہ اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور عام انتخابات میں بے نظیر کی مخالفت کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی وہ فیصلہ کن بات نہیں کر سکتے کہ وہ کوئی الگ سے پارٹی بنائیں گے یا کسی اور طریقے سے مخالفت کریں گے البتہ انہوں نے واضح کیاکہ انہوں نے پیپلز پارٹی نہیں چھوڑی ہے۔جب ان سے کہا گیا کہ ان جو موقف ہے وہ وہی ہے جو میاں نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کا ہے تو کیا ان کا نواز شریف سے کوئی رابطہ ہے۔ غلام مصطفی کھر نے کہا کہ یہ موقف صرف نواز شریف کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے اور کل تک پیپلز پارٹی کا بھی تھا لیکن بے نظیراگراس موقف سے ہٹ گئی ہیں تو وہ اس بات میں ان کے مخالف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرا رشتہ ذالفقار علی بھٹو سے ہے اور میں ان کے اصولوں پر یقین رکھتا ہوں۔بینظیر کی طاقت بھی بھٹو کی قبر کی وجہ سے ہے خود ان کی کوئی قابلیت نہیں ہے۔مصطفی کھر نے خدشہ ظاہر کیا کہ بے نظیر سے مفاہمت کے بعد ہونے والے انتخابات میں صدر مشرف کھل کر دھاندلی کروائیں گے اور چونکہ ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بنک بھی بہت رہ گیا ہوگا اس لیے یہ دھاندلی اس کے لیے بھی ہوگی لیکن بے نظیر یاد رکھیں کہ صدر مشرف کی اصل پارٹی ق لیگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں مشرف کا اصل ٹارگٹ صرف اور صرف ق لیگ کو جتوانا ہوگا اور وہ پیپلز پارٹی کو دوسرے درجے پر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا بے نظیر ق لیگ سے جس قسم کا الائنس بنانے جا رہی ہیں وہ چھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکے گا لیکن جب یہ الائنس ختم ہوگا تو پیپلز پارٹی کی حیثیت بھی قومی سیاست میں ختم ہوچکی ہوگی۔اس سوال پر کہ وہ تو خود فوج اور سیاست دانوں کے اشتراک کی بات کرتے رہے ہیں اب بے نظیر نے فوج سے بات شروع کی ہے تو انہیں کیوں اعتراض ہورہا ہے؟مصطفی کھر نے کہا کہ انہوں نے یہ بات تین برس پہلے کی تھی لیکن آج کے حالات میں بہت فرق آچکا ہے اب صدر مشرف کی وجہ سے ملک کی سالمیت اور فیڈریشن خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ز