فوج سیاست سے الگ ہوجائے‘ کوئی یحییٰ خان ملک نہیں بچا سکتا۔جاوید ہاشمی۔۔عوامی تحریک نے عدلیہ کو نئی طاقت دیدی ہے‘ چیف جسٹس کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے عدلیہ اور سیاست بدل چکی ہیں‘ اب مارشل لاء کو جائز سرٹیفکیٹ دینے والی عدالت مرچکی۔سیاسی جماعتوں نے فوج سے تعاون کیا تو ملک کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا‘ بلوچستان الگ ہوجائے گا‘ فوج تقسیم ہوسکتی ہے

اتوار 5 اگست 2007 11:55

لندن (ٍٍاردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین05 اگست 2007) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائمقام صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت ملک کیلئے تباہ کن ہے‘ کوئی یحییٰ خان ملک کو نہیں بچا سکتا‘ ملک کسی دوسرے یا تیسرے جنرل یحییٰ کا متحمل نہیں ہوسکتا‘ عوامی تحریک نے عدلیہ کو نئی طاقت دیدی ہے‘ چیف جسٹس کیس میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے سے پاکستان کی عدلیہ اور سیاست بھی بدل چکے ہیں‘ اب مارشل لاء نہیں لگ سکتا‘ مارشل لاء کو جائز ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے والی عدلیہ مرچکی ہے‘ سیاسی جماعتوں نے فوج سے تعاون کیا تو ملک ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا‘ بلوچستان کو علیحدگی سے کوئی نہیں روک سکتا اور فوج بھی ٹوٹ جائے گی‘ فوج چند جرنیلوں کے اقتدار کی خواہش کیلئے قربان نہیں کی جاسکتی‘ امریکی خواہشات پر فوج کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ فوج کو تقسیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

(جاری ہے)

بی بی سی سے خصوصی بات چیت میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ وہ نہ صرف اپنے ان خیالات پر قائم ہیں جن کی بنیاد پر ان پر مقدمہ قائم ہوا تھا بلکہ ان کے یہ خیالات مزید پختہ ہو گئے ہیں۔ ’سیاسی معالات میں فوج کا عمل دخل نہ صرف خود فوج کے لیے بلکہ ملک اور قوم کے لیے بھی تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ گزشتہ دنوں میں عدالت کے رویے میں کیا تبدیلی آئی ہے، تین سال دس ماہ قید رہنے والے مسلم لیگ رہنما کا کہنا تھا کہ آج پاکستان میں عدلیہ کو اعتماد ہے کہ سولہ کروڑ عوام اس کی پشت پر ہیں جو عدلیہ کی آزادی کے لیے سڑکوں پر آنے کو تیار ہیں۔

’جب میری ضمانت کی درخواست مسترد ہوئی تھی تو تب بھی افتخار محمد چودھری اس بینچ کے سربراہ تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ چار ماہ کی عوامی تحریک نے عدلیہ کو نئی طاقت دے دی ہے۔ عوام نے عدلیہ کی آزادی کی جنگ اس لیے لڑی ہے کہ وہ انہیں انصاف دے سکے۔ اب پاکستان، یہاں کی عدلیہ اور سیاست سب بدل چکے ہیں۔جب مخدوم جاوید ہاشمی سے پوچھا گیا کہ رہائی کے بعد وہ وقتی تقاضوں کی سیاست کریں یا یا مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے تو انہوں نے کہا کہ سوال مزاحمت کی سیاست کا نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کا ہے۔

فوج 1971ء میں بھی پاکستان کو نہیں بچا سکی تھی، نہ فوج مشرقی پاکستان کو بچا سکی تھی اور نہ ہی اسے کارگل میں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔انہوں نے کہا کہ اب یہ بات مسلمہ ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج اس کا اکیلے دفاع نہیں کر سکتی بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے عوام اس کے ساتھ ہوں کیونکہ عوامی حمایت کے بغیر فوج کی کوئی اہمیت نہیں۔اپنے اس موٴقف کی وضاحت کرتے ہوئے جاوید ہاشمی نے کہا کہ جب پہلے ملک ٹوٹا تھا تو اس وقت یحییٰ خان کی وردی تھی اور اب ہمیحییٰ خان کی وردی کو جنرل پرویز مشرف کے جسم پر دیکھ رہے ہیں۔

کوئی یحییٰ خان ملک کو نہیں بچا سکتا بلکہ ملک کو اس کے عوام، آئین اور اللہ کی ذات بچا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ملک کسی دوسرے، تیسرے یا چوتھے جنرل یحییٰ خان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس سوال کے جواب میں کہ اگر انہیں اس صورتحال کا سامنا ہو کہ جہاں ایک باوردی یا وردی کے بغیر جنرل اور مارشل لاء میں انتخاب کرنا ہو تو ان کا ردعمل کیا ہوگا تو جاوید ہاشمی نے کہا کہ اب پاکستان میں مارشل لاء ممکن نہیں کیونکہ اب عدلیہ نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار نہیں دے سکتی۔

مارشل لاء اپنی موت اس لیے مر چکا ہے کہ اب وہ یتیم ہو گیا ہے۔ مارشل لاء کو جائز ہونے کا سرٹیفیکیٹ دینی والی عدلیہ اب مر چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہی عدالتیں، سپریم کورٹ اور سیاسی جماعتیں مارشل لاء کے ماں باپ بنتے رہے ہیں لیکن اب مارشل لاء مر چکا ہے اور اس کے انڈے بچے دینی والی مرغی بھی مر چکی ہے۔سیاسی جماعتوں اور فوجی حکومت کے درمیان تعاون کے امکانات پر جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ملک کو ایک دوسرے سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

’اگر سیاسی جماعتوں نے وہی کیا جو یحیٰ خان کے زمانے میں کیا تھا تو بلوچستان کو علیحدگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ فوج کو بھی ٹوٹنے سے نہیں بچایا جا سکے گا۔‘ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک کے حوالے سے مسلم لیگ نواز کے نائب صدر نے کہا کہ چیف جسٹس کے باہر آنے سے پاکستان میں فیڈریشن زندہ ہوئی ہے۔

’اب تمام صوبوں کے عوام محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان کے ساتھ کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو اسلام آباد کی ایک عدالت سے ان کی داد رسی ہو سکتی ہے۔‘ جاوید ہاشمی نے اس خیال کی تردید کی کہ گزشتہ چار سالوں میں پاکستان میں زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں اور مزاحمتی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے۔’پیپلز پارٹی، ایم ایم اے یا مسلم لیگ، جو بھی آمریت کے ساتھ کھڑا ہوا عوام اس کو معاف نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان میں مثبت تبدیلیاں آئیں ہیں اور ذرائع ابلاغ اتنے آزاد ہو چکے ہیں کہ کسی بھی سیاسی رہنما کا کردار عوام سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ ’ یہ رابطوں کی دنیا ہے اور اب کسی کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ مخالفین کی آواز کو دبا سکے۔ آج کی دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے۔ اگر میں، مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد یا کوئی دوسرا غلط کام کرے گا عوامی طاقت سے نہیں بچ سکے گا۔

عوامی طاقت اتنا زور پکڑ چکی ہے کہ اس کے آگے جو بھی بند باندھنے کی کوشش کرے گا، عوام کا سیلاب اسے بہا لیجائے گا۔‘ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان مبینہ ڈیل، اے آر ڈی میں اختلافات اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے جنرل مشرف کے بحیثیت فوجی سربراہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی حمایت کے عندیے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جاوید ہاشمی نے اپنا یہ موٴقف دھرایا کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں اور ایسے میں ’کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ عوامی خواہشات کے خلاف جا سکے۔

‘پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار سے متعلق جاوید ہاشمی کا مزید کہا تھا کہ ’ہماری فوج اسلامی دنیا میں سب سے اعلیٰ، تربیت یافتہ اور ڈسپلن کی پابند فوج ہے اور یہ فوج چند جنریلوں کی اقتدار کی خواہش کے لیے قربان نہیں کی جا سکتی۔‘جاوید ہاشمی نے امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کہا کہ ’پاکستان کی فوج کو چلانے والے خود فوج کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔

‘انہوں نے کہا کہ ’اگر پاکستانی فوج امریکہ کے کہنے پر لال مسجد، باجوڑ، وزیرستان، اکبر بگٹی کے خلاف اور بلوچستان میں فوجی کارروائی کرے گی تو یہ فوج کو تقسیم کرنے کی سازش کے مترادف ہو گا۔‘ اس بارے میں جاوید ہاشمی نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے حوالے سے خود امریکہ میں سوچ بدل رہی ہے۔ ’ آج جارج بْش کو وہ حمایت حاصل نہیں ہے جو انہیں حاصل تھی۔

اگر امریکی عوام صدر بش کی حمایت نہیں کر رہے تو پاکستان ان کی حمایت کیوں کرے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ قید کے دوران پاکستان کی سیاست کے حوالے سے ان کے خیالات میں کیا تبدیلی آئی ہے، جاوید ہاشمی نے کہا کہ اب پاکستان میں شخصی سیاست کا دور ختم ہو چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ہاں جمہوری رویہ اپنانا ہوگا۔ ’ جب تک خود سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں آئیگی اس وقت تک پاکستان میں جمہوریت نہیں آ سکتی۔

ہمیں اب پاکستان میں جمہوریت کا بیج بونا ہے تا کہ آئندہ نسل کو اس کا ثمر مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ عرصے میں نے بہت کچھ پڑھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میرے خیالات وہی ہیں جو سکول کے دنوں میں تھے۔ میرا نظریہ اور سیاست وہی ہے کہ اس دھرتی کو جمہوریت چاہئے ۔ اگر اسلام کی بات بھی کرنا ہے تو اس کے لیے بھی جمہویت کا ہونا ضروری ہے۔