صدر جنرل پرویز مشرف نو مارچ کے بعد پھنس گئے! تمام واقعات کی تفصیل

ہفتہ 3 نومبر 2007 00:22

صدر جنرل پرویز مشرف نو مارچ کے بعد پھنس گئے! تمام واقعات کی تفصیل
اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین، 3 نومبر 2007) صدر جنرل پرویز مشرف نے نو مارچ دوہزار سات کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اختیارات کے غلط استعمال کے الزام کے تحت معطل کیا جس کے بعد وکلاء نے معطل چیف جسٹس کے حق میں احتجاجی مظاہرے کئے اور اس تحریک کے نتیجے میں صدر کی مقبولیت متاثر ہوئی۔ ہفتہ بھر کے محاصرے کے بعد دس جولائی دوہزار سات کو اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں نائب خطیب مولانہ عبدالرشید سمیت ایک سو پانچ افراد مارے گئے اور پورے ملک میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

بیس جولائی کو سپریم کورٹ کے بینچ نے معطل چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کیا جو صدر جنرل پرویز مشرف کی اتھارٹی کو ایک بڑا دھچکہ تھا۔ اس کے سات دن بعد ستائیس جولائی دوہزار سات کو صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو میں دبئی میں ملاقات ہوئی جس کے دوران دونوں رہنماؤں میں ملک میں بحالی جمہوریت کے حوالے سے مذاکرات ہوئے اور بے نظیر نے صدر کے مستعفی ہونے سمیت کچھ شرائط رکھی لیکن مذاکرات نتیجہ تک نہ پہنچ سکے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد دس اگست کو مسلم لیگ کے نون کے سربراہ میاں محمد نواز شریف آٹھ سال کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئے لیکن انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے ہی سعودی عرب بھیج دیاگیا۔ سپریم کورٹ نوازشریف کے واپسی کے حق میں پہلے سے فیصلہ دے چکی تھی اور ان کی دوبارہ جلاوطنی کو توہین عدالت قراردیا۔ دو اکتوبر کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اشفاق کیانی کو نیا وائس چیف آف آرمی اسٹاف نامزد کیا اور بے نظیر بھٹو کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات واپس لینے کا اعلان کیا جس سے محترمہ کی واپسی یقینی ہوئی لیکن اٹھارہ اکتوبر کے بے نظیر بھٹو کی ویلکم ریلی میں خودکش یا کار بم دھماکے ہوئے جس سے ایک سو انتالیس افراد جاں بحق ہوگئے۔

دو نومبر کو سپریم کورٹ نے صدر کے دوعہدوں کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کی کہ آیا صدر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد آرمی چیف اور صدر کے دوعہدے ایک ساتھ رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ جبکہ صدر کے عہدے کی مدت پندرہ نومبر کو ختم ہورہی ہے۔ آج تین اکتوبر کو صدر جنرل پرویز مشرف نے تیہتر کے آئین کو معطل کرتے ہوئے پورے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا۔ جس پر امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور بھارت سمیت پوری دنیاکے رہنماؤں نے تشویش کا اظہار کیا اور امید کی آئندہ انتخابات صاف اور شفاف ہونگے۔

متعلقہ عنوان :