ملک کی صورتحال بد تر ہوتی جا رہی تھی , پاکستان تیزی سے آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہا تھا , صورتحال کے باعث ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی , پرویزمشرف ۔۔۔ بر وقت فیصلہ نہ کیا جاتا تو ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی , قوم نے ساتھ دیا توپاکستان کو مزید آٰگے کی طرف لے جائینگے , عالمی برادری معاملے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے , اپنے فیصلے خود کرینگے , حالات سے جھکنا نہیں مقابلہ کرنا سیکھا ہے , عوام موجودہ صورتال میں میرا ساتھ دیں , صدرکا قوم سے خطاب

ہفتہ 3 نومبر 2007 00:59

ملک کی صورتحال بد تر ہوتی جا رہی تھی , پاکستان تیزی سے آگے کی بجائے پیچھے ..
اسلام آباد (اُردوپوائنٹ تازہ ترین۔ 3نومبر2007ء ) صدرجنر ل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان اندرونی بحران اور خلفشار کا شکار تھا بروقت فیصلہ نہ کیا جاتا تو ملک کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی۔ایمرجنسی نفاذ کا فیصلہ ملکی مفاد کیلئے کیا اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہ تھا , صورتحال سے نمٹنے کیلئے جھکنا نہیں سیکھاہمیشہ ہر صورتحال کا مقابلہ کیا ہے۔ قوم نے ساتھ دیا تو انشاء اللہ پاکستان کو مزید آگے کی جانب لے جائینگے۔

اپنے فیصلے خود کرینگے اور ہر فیصلے پاکستان کے آئین کے مطابق ہونگے۔ یورپی یونین ,دولت مشتر کہ اوراقوام متحدہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد ہفتہ کی شب سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

صدر نے کہا کہ پاکستان ایک خطرناک موڑ پر ہے اندرونی بحران اور خلفشار کا شکار ہے۔

اس وقت بہت اہم اور بعض اوقات قوموں کی تاریخ میں تکلیف دہ فیصلوں کا وقت آتا ہے اور پاکستان کیلئے بھی تکلیف دہ فیصلوں کا وقت ہے اگر بروقت فیصلہ نہ کیاگیاتو پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے جو فیصلہ کیا سب سے پہلے پاکستان کی بنیاد پر کیا۔ مجھے امید ہے قوم اس نقطہ نظر سے سوچے گی ۔ گزشتہ مہینوں میں ملک کی صورتحال بدلتی رہی , دہشت گردی اور انتہا پسندی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔

خود کش حملے پورے پاکستان میں ہو رہے ہیں ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی زوروں پر ہے د ہشت گرد پورے پاکستان میں بغیر کسی ڈر کے گھوم رہے ہیں افسوس ہے کہ اسلام آباد میں بھی انتہا پسندی پھیل گئی ہے۔ انتہا پسند حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے حکومت کے اندر ایک اپنی حکومت چلا رہے تھے اور اسلام کے بارے میں ایک اپنا خیال اعتدال پسند لوگوں پرٹھونس رہے ہیں جو پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرے کی علامت ہے۔

صدر نے کہا کہ تمام سینئر حکومتی عہدیدار سپریم کورٹ کے چکر لگا رہے ہیں ان کو سزائیں دی جا رہیں ہیں ان کی بے عزتی کی جا رہی ہے۔ سوموٹو ایکشن عدالت میں چل رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں سوموٹوایکشن کی درخواستیں آئی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آفیسرز کو سزائیں دی جا رہی ہیں آفیسرز کو معطل کیا جارہا ہے۔ جمہوری عمل میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں انہوں نے کہا کہ 99ء میں جب ہماری حکومت آئی تو اس وقت ایک حکمت عملی بنائی تھی کہ ملک کو اصل جمہوریت کی طرف لے جایا جائے۔

2002ء میں اس حکمت عملی کے تحت کام کیا۔ پھر دوسرا مرحلہ 2007ء میں چلا جو ایک منتخب حکومت کے طورپر چلی اور ایک جمہوری نظام چلا میں نے اس کی نگرانی کی۔ دوسرا مرحلہ خوش اسلوبی سے گزارا اور ایک ریکارڈ قائم کیا کہ پہلی دفعہ اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی۔ پھر تیسرا مرحلہ آیا تو ہمیں امید تھی کہ یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائیگا ہماری خواہش تھی کہ سیاسی طرزعمل کے ذریعے نیا دور شروع ہو لیکن بڑے افسوس ہے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ عناصر اس جمہوری نظام میں مداخلت کر کے اس نظام کو چلنے نہیں دیتے اور یہ سارا معاملہ ذاتی مفادات , سیاسی مفادات اور پاکستان کے نقصان میں خلفشار پیدا کیا جارہا ہے۔

جمہوری نظام میں دخل اندازی , قانون شکنی , انتہا پسندی سے ہماری بڑھتی ہوئی حقیقت دوبارہ تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ تمام سرمایہ کار جو یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے انہوں نے اپنا سرمایہ روک لیا۔ ہماری معیشت , عوام کی معاشی حالت جو کہ گزشتہ سات سالوں میں بہتر ہوئی , سڑکیں , بندر گاہیں , انفراسٹرکچر , تعمیراتی نظام , ٹیلی مواصلات , فلائی اوورز پل , ہزاروں صنعتی لگ رہی تھیں اور ملک ایک انقلاب اور تعمیر کی طرف گامزن ہو چکا تھا۔

تعلیم کے شعبے سمیت تمام شعبوں میں پاکستان آگے کی طرف بڑھتا ہوانظرآرہا تھا لیکن اب یہ محسوس ہوا کہ ہماری سات سالہ محنت پرپانی نہ پھیرا جائے۔ پوری قوم مایوسی کاشکار ہو رہی تھی مجھے لوگ فون کر رہے ہیں کہ آپ تو بڑے فیصلے کرنے والے تھے اب آپ کو کیا ہوا کہ سب کچھ کرنے کے بعد اب فیصلے کیوں نہیں کرتے ۔ مجھے امید تھی کہ عدلیہ اور حکومتی ادارے تمام صورتحال سے نمٹ لیں گے لیکن میری نظر میں یہ نہیں ہوا صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہیں پاکستان تیزی سے آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے۔

میڈیا کے کچھ چینل اور کچھ پروگرام نے منفی سوچ کو روکنے میں مدد نہیں دی بلکہ غیر یقینی کی فضاء میں اضافہ کیا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ وہ میڈیا ہے جو 1999ء میں صرف پی ٹی وی تھا میں نے اور میری حکومت نے میڈیا کو آزادی دی , میرا یقین ہے کہ میڈیا آزاد ہوناچاہیے لیکن ذمہ داری کا احساس ہوناچاہیے جوکچھ ہوا عدلیہ جو ریاست کا ایک اہم ستون ہے اس کا , مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان نااتفاقی مداخلت کی وجہ سے ہوا۔

یہ سلسلہ نو مارچ سے شروع ہوا جب وزیراعظم نے سفارش کی کہ یہ ایک زمینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیجا جس میں سنگین الزامات تھے اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی وہ خطرناک تھی۔ کچھ سیاسی عناصر اس میں الجھ گئے جس کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوا اگر کسی قانون نافذ کرنے والے فرد سے کوئی غلطی ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورے ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔

ریفرنس ایک آئینی اقدام تھا اس کے خلاف فیصلہ دیدیا گیا ا س کو خوش اسلوب سے قبول کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور ایک مفاہمت کا رویہ اختیار کیا تاکہ پاکستان میں لڑائی جھگڑا بند ہو۔لیکن بدقسمتی سے سلسلہ بند نہیں ہوا۔ پوری کوشش اور تعاون کیا لیکن حالات وہیں کے وہیں رہے بلکہ آئے روز بدلے گئے اسلام آباد میں لال مسجد میں انتہا پسندوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری بے عزتی ہوئی کہ ہم ایک بڑی طاقت ہو کر اپنے دارالحکومت میں کنٹرول نہیں کرسکے۔

انتہا پسندوں نے پولیس اہلکاروں کو شہید کیا , حراست میں لیا , دوکانیں جلائیں , ہمارے دوست ملک چین کے لوگوں کو مارا جس پر مجھے شرمندگی ہوئی مجھے چینی حکومت سے معافی مانگنی پڑی پھر وزارت ماحولیات کی عمارت اور گاڑیوں کو جلایا۔ کئی ماہ تک برداشت کیا ہم پرانگلیاں اٹھیں کہ ایکشن نہیں لیا جاتا لیکن جب ایکشن لیا تو ہمارے خلاف جو بے عزتی کا باعث تھا وہ ختم ہوا اس آپریشن میں جولوگ شہید ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

اس کے بعد سانحہ لال مسجد کے حوالے سے عدالت میں کیس چلا عدالت نے 61دہشت گردوں کو رہا کیا اورخدشہ ہے کہ راولپنڈی , سرگودھا اور دیگر کئی جگہوں پر انہی لوگوں نے خود کش حملے کئے پھر جوایسے عناصر تھے ان کو دوبارہ مسجد کھولنے کا حکم جاری ہوا انتہا پسندی کی تعلیم دینے والے مدارس کو کھولنے کا حکم دیا۔ لال مسجد میں وہی لوگ جو پہلے تھے انہی کو سکیورٹی کیلئے رکھا۔

معلوم نہیں وہی سیکورٹی کے لوگ پھر بندوقیں اندر لیکر چلتے رہیں وہی عناصر جن کے عزیز و اقارب نے پہلے حکومت کو چیلنج کیا وہی دوبارہ بلاکر کے بٹھاتے رہے۔ پھ ر صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا اس میں ایک قانونی اور آئینی طریقے سے تمام ضابطے طے ہوئے چیف الیکشن کمشنر نے تمام امیدواروں کو جانچ پڑتال کے بعد اجازت دی پھر کچھ ریفرنسز آئے جن پر سات ممبر کا بنچ بنا۔

پھر اٹھا کر نو اور اس کے بعد گیارہ ممبر کا بنچ بنا دیا گیا حتی کہ سب کچھ کرنے کے بعد صدارتی انتخابات ہوئے تو اسمبلی نے مجھے 57فیصد ووٹ دیکر مجھے ایک بار پھر صدرمنتخب کیا لیکن کیس پھر بھی لٹکا ہوا ہے اورنوٹیفکیشن نہیں دیا جا رہا ہے۔ ایک صاحب نے بیٹی کی شادی میں جانا ہے اس لئے کیس پھر آگے لے جایا گیا ۔ پوری قوم جس فیصلے کی منتظر ہے اس کو طول دی گئی ۔

وزیر اعظم نے بھی ایک جائزہ رپورٹ ارسال کی کہ اس صورتحال میں حکومت کو چلانا مشکل ہے ۔ صدر نے کہا کہ یہ ملک میرے دل میں بستہ ہے میرے خون اور روح میں بستا ہے اس کو نیچے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اس لئے ایک ایکشن کا وقت آ گیا ملک کو مزید پیچھے جانے کیلئے کیسے روکنا ہے ہم ریاست کے تین ستونوں میں ہم آہنگی اور یکجہتی لائینگے تو پھر اچھے طریقے سے حکومت کر سکیں گے اور انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کردینگے اور ایک لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کو دوبارہ اپنی پٹڑی پر لایا جائے اس صورتحال کے پیش نظر ملک بھر کے سیاسی ,فوجی اور اعلی حکام سے مشورہ لیکر ایک فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ جمہوری عمل کے تیسرے اور آخری مرحلے کی تکمیل کیلئے کیا گیا جومیرا ارادہ تھا وہ پورا کیاجائیگا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا۔

ایمرجنسی کے ذریعے حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تمام اسمبلیاں بدستور رہیں گی اور سینٹ اور کابینہ بھی چلتی رہے گی یہی طریقہ تھا کہ پاکستان کو جلدی سے جلدی ترقی کی طرف گامزن کیا جائے اور جمہوری نظام کے آخری مرحلے کو آسانی سے تکمیل تک پہنچایا جائے۔صدر نے یورپی یونین, دولت مشتر کہ اوراقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

پاکستان نے گزشتہ سات سالوں میں عالمی امن کیلئے بے شمار اقدامات کئے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے کارروائیاں کیں پاکستان خود کش حملوں کی زد میں آیا ۔ پا کستان فوجی نظام سے سول نظام کی طرف جا رہا ہے مجھے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے ووٹ دیکر دوبارہ صدر منتخب کیا۔ صدر نے مطالبہ کیا کہ برائے مہربانی کوئی ہم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے کوئی ڈیمانڈ نہ کرے ہم اپنے فیصلے خود کرینگے اور پاکستان کے آئین کے مطابق فیصلے کرینگے۔

صدر نے کہا کہ وہ بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ فوجی نظام کوسول نظام میں تبدیل اور ملک سے انتشار , انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس وقت ہم جمہوری حکومت کی طرف گامزن ہیں ہم سب سے پہلے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ پاکستان کا اپنا ایک وقار ہے اس وقار میں مزید اضافے کے خواہاں ہیں۔

صدر نے قوم سے خطاب میں کہا کہ میں نے جو کچھ کیااس سے بہتر اور کوئی نہیں تھا اس لئے اگر میری جان کی ضرورت ہے تو وہ بھی حاضر ہے میں نے صورتحال سے نمٹنے کیلئے جھکنا نہیں سیکھا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اگر قوم نے میرا ساتھ دیا تو انشاء اللہ پاکستان کو مزید آگے کی طرف لے جائیں گے اور سب مل کر پٹڑی سے اتری ہوئی ریل کو دوبارہ صحیح سمت پر لائیں گے ۔ صدر نے کہا کہ عوام تنگ ہے مہنگائی کی وجہ سے اور اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کی وجہ سے اس کا مجھے پورا احساس ہے ہم سب مل کر اس صورتحال کا مقابلہ کرینگے۔

متعلقہ عنوان :