بے نظیر حکومت کے ساتھ مفاہمت کے تحت ہی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اٹارنی جنرل۔۔۔ججوں کی تقرری میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی‘جج بننے کیلئے وکلاء قطاروں میں کھڑے ہیں۔چیف جسٹس نظر بند نہیں میں جب چاہوں مل سکتا ہوں‘وہ ایک ماہ رہائش گاہ استعمال کر سکتے ہیں‘انٹرویو

اتوار 11 نومبر 2007 13:15

بے نظیر حکومت کے ساتھ مفاہمت کے تحت ہی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔اٹارنی ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار11 نومبر2007) اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم نے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو صدر پرویزمشرف سے مفاہمت کے بعد ہی پاکستان آئی ہیں اور سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ‘ دیکھا جارہا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق عمل کرتی ہیں یا اس سے تجاوز کرتی ہیں سپریم کورٹ نے اپنی حدود سے تجاوز کیاتھا اور قیمتیں مقرر کرنے اور ٹریفک کنٹرول کرنے کے متعلق ازخود نوٹس لینے کا ایک سلسلہ شروع کیاتھا جج بننے کیلئے کئی وکلاء کی پرچیاں میری جیب میں ہیں تاہم بعض وکلاء ایک طرف جج بننے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں-برطانیہ کے چینل فور ٹی وی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنی حدود سے تجاوز کر کے پولیس افسران کو گرفتار کرنا ،ٹریفک کنٹرول کرنا اور قیمتیں مقرر کرنے کی ذمہ داری لے لی تھی جس کے باعث حالات ایمرجنسی تک گئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو نئے ججوں کی تقرری میں کوئی مشکل حائل نہیں اور میری جیب میں اب بھی بہت سے وکیلوں کی چٹیں موجود ہیں جو میری توسط سے حکومت کے ساتھ رابطہ اور جج بننا چاہتے ہیں انہوں نے دعوی کیا کہ جج بننے کے لیے وکیلوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور ہم بہت جلد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں میں ججوں کی تعداد پوری کر لیں گے-انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں منگل تک تین مزید جج مقررکر دیئے جائیں گے جس کے بعد صدر مشرف کی اہلیت والے کیس کی سماعت کیلئے بنچ میں ججوں کی مطلوبہ تعداد بھی پوری ہو جائے گی-انہوں نے دعوی کیا کہ معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نظربند نہیں اور اگر میں ان سے ملنا چاہوں تو مل سکتا ہوں-انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک ماہ تک سرکاری رہائش گاہ استعمال کر سکتے ہیں اور مدت پوری ہونے کے بعد انہیں وہاں سے منتقل ہونا پڑے گا-انہوں نے دعوی کیا کہ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں پر کوئی پابندی نہیں اور یہ کہ چار جج اسلام آباد سے اپنے گھروں کو جا چکے ہیں-بے نظیر بھٹو سے متعلق سوال پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں سیاسی امور پر تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن بے نظیر بھٹو صدر مشرف کے ساتھ مفاہمت کے بعد اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ مفاہمت میں طے شدہ امور کی پاسداری کرتی ہیں یا اس سے آگے جاتی ہیں-اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایمرجنسی مجبورا لگائی گئی تھی اور میں نے خود اس اقدام کو پسند نہیں کیا تھا لیکن دہشت گردی کی کاروائیوں کو روکنے کیلئے یہ اقدام ضروری ہو گیا تھا انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے اور اگر حالات مزید بہتر ہوتے رہے تو ایک ماہ میں ایمرجنسی اٹھا لی جائے گی-انہوں نے عندیہ دیا کہ سوات میں حالات کنٹرول کرنے کیلئے چند دنوں میں مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے-جب ان کی توجہ چند دنوں میں زیادہ حملوں کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ حالات میں بہتری آئی ہے-انہوں نے اس قانون کا دفاع کیا جس کے تحت بار کونسل اب وکلاء کی رکنیت ختم نہیں کر سکے گی بلکہ یہ کام عدالتوں کے سپرد کر دیا گیا ہے-انہوں نے کہا کہ وکلاء نے بھی بعض مواقع پر اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور قانون کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف بھی ایکشن لینا پڑا انہو ں نے کہا کہ اکثر وکلاء پیشے کی بجائے سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ چند وکلاء صحیح معنوں میں احتجاج کررہے ہیں-انہو ں نے کہا کہ کچھ وکلاء ہمارے ساتھ رابطہ کر کے جج بننے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور بعد میں مظاہروں میں شرکت بھی کرتے ہیں-انہوں نے بعض مقامات پر وکلاء پر پولیس تشدد پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا-انہوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والوں کو فوجی نظام کے تحت سزا ملنی چاہئے- قومی مفاہمت آرڈیننس سے متعلق سوال پر ملک قیوم نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو اس قانون کے تحت سہولتیں دی گئی ہیں -

متعلقہ عنوان :