باڑہ کارروائی میں غیر اعلانیہ تعطل، کارروائی جاری ہے ،حکو مت۔۔۔لشکر اسلام کا آپریشن کے خاتمے اور گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ

ہفتہ 5 جولائی 2008 18:00

باڑہ کارروائی میں غیر اعلانیہ تعطل، کارروائی جاری ہے ،حکو مت۔۔۔لشکر ..
پشاور (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین05جولائی2008 )قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جرگہ کے فعال ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی دو دنوں سے غیر اعلانیہ طور پر رک گئی ہے۔ تاہم حکومت نے کہا ہے کہ کارروائی جاری ہے۔دوسری طرف لشکرِ اسلام نے جرگہ کے ذریعے حکومت کے سامنے آپریشن کے خاتمے اور اپنے گرفتار ہونے والے ساتھیوں کی رہائی کی شرائط پیش کردی ہیں۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق تحصیل باڑہ میں جمعہ کے روز سے لشکرِ اسلام کے خلاف شروع کی جانے والی کارروائی بظاہر رک گئی ہے اور گزشتہ دو دنوں سے سکیورٹی فورسز نے کسی قسم کی کوئی کارروائی کی اور نہ ہی اس دوران کسی کو گرفتار کیا جاسکا ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن بند نہیں کیا گیا ہے اور یہ مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا۔

(جاری ہے)

پولٹیکل انتظامیہ کی جانب سے صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک کرفیو میں نرمی کے اعلان کے بعد ہفتہ کو باڑہ بازار جزوی طور پر کھلا رہا اور لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق پشاور اور باڑہ کے درمیان گاڑیوں کی آمدروفت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں بظاہر خاموشی اور کرفیو میں نرمی کے غیر اعلانیہ اقدامات اٹھارہ رکنی قبائلی جرگے کے فعال ہونے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ جمعہ کو حاجی عمل گل کی سربراہی میں قبائلی جرگے نے دور افتادہ علاقے تیراہ میں لشکرِ اسلام کے سربراہ منگل باغ سے بات چیت کی تھی۔

جرگہ کے ایک رکن حاجی شوکت نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ منگل باغ نے مذاکرات کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے ۔ لشکرِ اسلام کے ایک رہنماء حاجی مستری گل نے بتایا کہ انہوں نے جرگے کے سامنے حکومت کو جو شرائط پیش کی ہیں ان میں آپریشن کا خاتمہ، ان کے 35کے قریب ساتھیوں کی رہائی اور علاقے سے جرائم پیشہ افراد کا صفایا کرنا شامل ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت نے ایک ہفتے قبل صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور سے ملحقہ تحصیل باڑہ میں لشکرِ اسلام کے خلاف کارروائی شروع کی تھی اور پہلے چند دنوں کے دوران سکیورٹی فورسز نے تنظیم کے کئی مراکز سمیت منگل باغ اور کئی رہنماوٴں کے گھروں کو مسمار کردیا تھا۔ اس دوران حکومت نے 92 کے قریب افراد کی گرفتاری کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ آپریشن کا مقصد پشاور کے مضافات میں کچھ عرصے سے امن و امان کی خراب ہوتی صورتحال پر قابو پانا اور تحصیل باڑہ میں حکومت کی عملداری بحال کرنا ہے۔

تاہم ابتداء ہی سے کارروائی شکوک و شبہات کی شکار ہے کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ کارروائی کے دوران سکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی انہوں نے شدت پسند تنظیم یا جرائم پیشہ گروہ کے اہم افراد کو گرفتار کیا ہے۔