موجودہ شرح پیدائش 1.8 کو آئندہ 5سال میں 1.5 تک کم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘یوسف رضا گیلانی۔۔۔بے نظیر بھٹو شہید نے ترقی پذیر ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے بڑا جراتمندانہ موقف اپنایا تھا۔ ملک میں شرح پیدائش بڑھنے کی وجہ تعلیم کی کمی ہے‘وزیراعظم کا یوم آبادی کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب

جمعہ 11 جولائی 2008 15:18

موجودہ شرح پیدائش 1.8 کو آئندہ 5سال میں 1.5 تک کم کرنے کی کوشش کی جائے گی‘یوسف ..
اسلا م آباد (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین11جولائی2008 ) وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ملک میں موجودہ شرح پیدائش 1.8 کو آئندہ پانچ سال میں 1.5 تک کم کرنے کی کوشش کی جائے گی- جمعہ کو آبادی کے عالمی دن کے موقع پروزیراعظم سیکرٹریٹ میں منعقدہ ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں شرح پیدائش بڑھنے کی وجہ تعلیم کی کمی ہے- انہوں نے کہا کہ ایران‘تیونس‘مراکش اور بنگلہ دیش وہ اسلامی ممالک ہیں جنہوں نے آبادی کنٹرول کرنے میں اعلی مثال قائم کی ہیں-یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہمیں بھی ان ممالک کے تجربات سے سیکھنا چاہئے- انہوں نے کہا کہ خواتین کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بہبود آبادی کے پروگرام کے ذمہ داران کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے-انہوں نے سول سوسائٹی‘ میڈیا‘ مفاد عامہ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں‘سکالروں اور عام شہریوں سے اس مسئلہ سے نمٹنے کیلئے آگے آنے کی اپیل کی-انہوں نے بے نظیر بھٹو شہید کے آبادی اور ترقی کے موضوع پر مصر کے شہر قاہرہ میں 13جولائی 1994ء میں بین الاقوامی کانفرنس میں اپنی تقریر میں دنیا کی آبادی کا ایک نئے پہلو کا نظریہ پیش کیا تھا بے نظیر بھٹو شہید نے ترقی پذیر ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے بڑا جراتمندانہ موقف اپنایا تھا- وزیراعظم نے بے نظیر بھٹو شہید کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ”میں ایک ایسا پاکستان‘ایسے ایشیاء اور ایسی دنیا کا خواب دیکھتی ہوں جہاں پر پیدائش ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو‘ہر پیدا ہونے والے بچے کی مناسب نشو و نما‘مناسب پرورش‘محبت‘ تعلیم اور مدد میسر ہو“انہوں نے کہا کہ آبادی کے حوالے سے اس سال کا موضوع”خاندانی منصوبہ بندی آپ کا حق ہے‘آئیے اسے حقیقت کا روپ دیں“ جو دنیا بھر میں بسنے والے کروروں افراد کی زندگیوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے رپوگراموں کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے- وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہر سال 29 لاکھ افراد کے اضافہ سے اقتصادی و سماجی شعبوں کو بری طرح متاثرکر رہی ہے-اس آبادی پر قابو پانے کیلئے طے کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے انہوں نے پاکستان ڈیموگرافک ہیلتھ سروے میں حوصلہ افزاء رحجانات دیکھنے میں آئے ہیں جس کے مطابق 63 فیصد خواتین تولیدی عمر میں مزید بچوں کی پیدائش نہیں کرنا چاہتی ہیں یہ بہبود آبادی کے پروگرام کیلئے چیلنج کے ساتھ ساتھ موقع بھی ہے کہ اس ضمن میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے-انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبے کو بھی تولیدی صحت اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کی فراہمی کو تیز کرنے کی ضرورت ہے-انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خوشحالی ‘اقتصادی وسائل اور آبادی کے درمیان توازن کی مرہون منت ہے-یہ دن ہماری طرح کے ترقی پذیر ممالک کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ تقریبا 16 کروڑ سے زائد آبادی والا پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا گنجان آباد ملک ہے-وزیراعظم نے کہا کہ منتخب حکومت نے سماجی شعبوں بالخصوص آبادی‘صحت اور تعلیم کو نمایاں ترجیح دی ہے تاکہ اپنے ہم وطنوں کے معیار زندگی میں بہتری لائی جا سکے جیسا کہ آبادی پالیسی میں ذکر کیا گیا ہے کہ 2020ء تک آبادی میں استحکام لانے کا ہدف حاصل کرنے کیلئے وزارت بہبود آبادی کو اس سلسلے میں اپنی سرگرمیاں مزید تیز کرنے کیلئے سیاسی حمایت کے ساتھ خاطر خواہ وسائل بھی مہیا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے-انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر خشی ہوئی ہے کہ ملک کے دو دراز علاقوں کو معیاری خاندانی منصوبہ بندی اور دیہی صحت کی سہولتوں کا نیٹ ورک مہیا کرنے کے سلسلے میں وزارت بہبود آبادی کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

(جاری ہے)

جو ان علاقوں میں بالخصوص خواتین اور بچوں میں وسیع پیمانے پر امراض اور شرح اموات میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوں گے- بنیادی سطح پر بہبود آبادی کے پروگرام کی خدمات شروع کرنے کیلئے اس سلسلے میں معاشرے کے مختلف طبقوں کی طرف سے غیر معمولی کوششوں ‘عہد اور لگن کی ضرورت ہے- ان خدمات کو فروغ دینے کیلئے سازگار فضا قائم کرنے کے سلسلے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کیلئے میں دانشوروں اور محققین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اپنا کلیدی کردار ادا کریں- میرا پختہ یقین ہے کہ وہ چھوٹے اور صحت مند خاندان بنانے کے تصور کے فروع میں اجتماعی آگاہی اور ذاتی اثر و رسوخ فیصلہ کن کردار ادا کریں گے اور ہم سب کو اس سمت میں اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنا ہو گا-وزیراعظم نے کہا کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ عوام ہی ایک قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں اور ہمیں سمجھا چاہئے کہ عوام کی خوشحالی کا انحصار آبادی اور اقتصادی وسائل کے توازن پر منحصر ہے- میں نجی‘ شعبے سول سوسائٹی اور دسرے قومی تعمیر کے اداروں سے زور دیکر کہوں گا کہ وہ اس موقع پر آگے بڑھیں اور ملک میں بہبود آبادی کی سرگرمیوں کو مستحکم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ شامل ہو جائیں-