دو روزہ قومی عدالتی کانفرنس 17 نکاتی اعلامیہ کی منظوری

اتوار 5 جولائی 2009 20:38

دو روزہ قومی عدالتی کانفرنس 17 نکاتی اعلامیہ کی منظوری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5جولائی۔2009ء) ملک میں انصاف کی فوری موثر اور تیز تر فراہمی کیلئے دو روزہ قومی عدالتی کانفرنس 17 نکاتی اعلامیہ کی منظوری کے بعد ختم ہو گئی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی صدارت میں اتوار کی شام قومی عدالتی کانفرنس کے اختتامی سیشن میں 17 نکات پر مبنی اعلامیہ کی منظوری دی گئی جس میں عدلیہ کی انتظامیہ سے مکمل علیحدگی، ماتحت عدلیہ کیلئے وسائل کی فراہمی، عدالتوں، وکلاء اور قانون کے شعبہ سے متعلق تمام معاون اداروں میں باہمی اشتراک عمل سمیت مقررہ اوقات سے زائد وقت تک کام کرنے جیسے امور پر زور دیا گیا ہے ۔

اعلامیہ کے مطابق کانفرنس کے شرکاء نے قرار دیا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی پر بنیادی طور پر عملدرآمد میں جن مشکلات کا سامنا ہے ان میں افرادی قوت کی کمی، لوڈ شیڈنگ اور عدالتوں/ٹریبونلز کا مختلف منشتر مقامات پر موجود ہونا ہے ۔

(جاری ہے)

مشکلات کے باوجود ہونا ہے ۔ مشکلات کے باوجود یہ اتفاق رائے ہے کہ بینچ، بار اور انصاف یک شعبہ سے متعلقہ حکومتی ادارے قومی عدالتی پالیسی پر موثر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہیں خواہ اس مقصد کے حصول کیلئے مقررہ اوقات سے زائد بھی کیوں نہ کام کرنا پڑے ۔

کانفرنس میں زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کے سلسلے میں تمام فریقین کی کوششوں کو سراہا گیا۔ آئین، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی انتظامیہ بالخصوص خصوصی عدالتوں/ٹریبونلز کے حوالہ سے ملکی علیحدگی کے اصول کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔قومی عدالتی پالیسی میں مقررہ اہداف کو بروقت پورا کرنے کیلئے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے میں ماتحت عدلیہ کی استعداد کار کو بہتر بنانے کیلئے مناسب وسائل درکار ہیں۔

ججوں کی تقرری میں اولین معیار ان کے کردار اور اہلیت کو ہونا چاہیے ۔ ججوں کی خالی آسامیوں کو فی الفور پر کیا جائے اور ایڈہاک ازم کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ججوں اور عدالتی عملہ کیلئے تنخواہوں کا معیاری پیکج دیا جائے ۔ عدالتی افسران کی استعداد کار کو بڑھانے کیلئے تخلیقی تربیتی معیارات بنانے اور ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے تتاکہ عدالتی افسران تنازعات کے متبادل نظام اور مصالحت کے ذریعے مقدمات کو موثر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کریں۔

اس ضمن میں انجمن مصالحت اور تنازعات کے متبادل حل کے طریقہ کار پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے ۔ ججوں اور وکلاء کو غیر ضروری طور پر مقدمات میں التواء سے بچنا ہو گا۔ عدلیہ اور وکلاء کی جانب سے احتساب کے نظام کی کامیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ وکلاء اور ججوں کو اپنے معاون عملہ پر ہوشیاری سے نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ بد عنوانی کے مرتکب نہ ہو۔

عدالت و کچہری کے بارے میں پائی جانے والی منفی عوامی رائے کو تبدیل کر کے مستعد کارکردگی اور بد عنوانی سے پاک ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتی ماحول کو سازگار اور تمام متعلقہ لوگوں کے لئے دوستانہ بنانا چاہیے ۔ ایک مربوط سوچ کے ساتھ ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں عدالت، وکلاء اور انصاف کے شعبہ کے دیگر فریقین قریبی اشتراک عمل سے قومی عدالتی پالیسی کے اہداف کو حاصل کریں۔