علامہ علی شیر حیدری ساتھی سمیت مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ میں جاں بحق۔ اپ ڈیٹ

پیر 17 اگست 2009 18:22

خیر پور، کراچی، سکھر، حیدر آباد، اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17اگست ۔2009ء) کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ۔ پاکستان کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری اپنے ایک ساتھی سمیت مسلح افراد کی اندھا دھند فائرنگ میں جاں بحق‘ ایک گارڈ زخمی ہوگیا۔ واقعہ کے بعد کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں کشیدگی پیدا ہوئی، بڑی تعداد میں لوگوں نے ریلوے ٹریک سمیت شہر کے مختلف مقامات پر ٹائروں کو آگ لگاکر احتجاج کیا مشتعل نوجوانوں نے تین مسافر بسوں سمیت چار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

پٹرول پمپوں سمیت دیگر املاک کو نقصان کو پہنچایا ‘لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلوے ٹریک کو بلاک کردیا۔ جس سے ٹرینوں کی آمدو رفت شدید متاثر ہوئی۔ حیدر آباد، سکھر اور لاڑکانہ خیر پور سمیت کئی شہروں میں اہلسنت والجماعت کے کارکنوں نے کاروباری مراکز بند کروا دئیے۔

(جاری ہے)

مشتعل افراد نے پولیس اہلکاروں سمیت افسران پر حملہ پر بھی حملہ کیا جس کے بعد علاقے سے پولیس غائب ہوگئی تاہم بعد میں رینجرز اہلکاروں نے کراچی سمیت دیگر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا متعدد افرادگرفتار ، شہر میں داخل ہونے والے افراد کو پوچھ گچھ کرنے کے بعد داخلے کی اجازت دی گئی جبکہ پاکستان علما کونسل نے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیاہے۔

تفصیلات کے مطابق اتوار پیر کی درمیانی شب کو پیر جو گوٹھ کے قریب گاؤں دوست محمدا یڑو میں جلسے سے خطاب کے بعد کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیرپور آرہے تھے کہ سم نالی کے مقام پر چند مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں علامہ علی شیر حیدری، نعت خواں امتیاز احمد پھلپھوٹہ شہید ہوگئے جبکہ ان کا ایک ساتھی فرید عباسی زخمی ہوگئے ایک نجی ٹی وی کے مطابق علامہ علی شیر حیدری کے گارڈ کی جوابی فائرنگ میں ایک حملہ آور بھی ہلاک ہوگیا جس کی شناخت اوشاق جاگیرانی کے نام سے ہوئی ۔

واقعے کے فوری بعد پولیس نے علامہ علی شیر سمیت تمام زخمیوں کو سول ہسپتال لائی جہاں ڈاکٹروں نے علامہ علی شیر حیدری اور نعت خواں امتیاز احمد پھلپھوٹہ کی شہادت کی تصدیق کی۔خیر پور پولیس کے سربراہ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ علی شیر حیدری پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا ۔ اس حملے میں وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ شہید ہو گئے جبکہ گاڑی میں موجود ایک اور شخص زخمی ہو گیا۔

پولیس سربراہ نے بتایا کہ جس مقام پر علی شیر حیدری پر حملہ ہوا وہاں سے ایک نامعلوم شخص کی لاش بھی ملی ہے۔علامہ علی شیر حیدری خیرپور کے محلہ جانوری میں محمد وارث کے گھر میں 1963ء میں جنم لیا ۔ پرائمری تعلیم گاؤں کے پرائمریا سکول سے حاصل کی۔ 1987 ء میں ناز ہائی اسکول سے میٹرک پاس کی۔ بعد ازاں وہ فاروق اعظم کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے کام کیا اور انہوں نے دینی تعلیم پیر جو گوٹھ اور لاڑکانہ کے مدارس سے حاصل کی اور ان کی دستار بندی دارالہدیٰ ٹھیڑی میں ہوئی ان کے اساتذہ میں مولانا علی محمد حقانی اور مولانا مفتی غلام قادر سرفہرست تھے۔

وہ حافظ قران تھے۔ 1997ء میں علامہ محمد اعظم طارق کی شہادت کے بعد 1997ء میں ہی سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ بنے۔سپاہ صحابہ پاکستان کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد مولانا محمد اعظم طارق نے ملت اسلامیہ کے نام سے نئی تنظیم قائم کی جسے بعد میں حکومت نے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ملت اسلامیہ کے کالعدم قرار پانے کے بعد علامہ علی شیر حیدری نے اہلسنت والجماعت کے نام سے نئی تنظیم بنائی۔

انہوں نے متعدد بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ علامہ نے اولاد کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے دو شادیاں کیں مگر انہیں اولاد نہ ہوئی۔ کالعدم تنظیم انجمن سپاہ صحابہ کے پہلے سربراہ حق نواز جھنگوی تھے جس کے بعد قیادت مولانا ایثارالقاسمی نے سنبھالی مولانا ایثارالقاسمی کی شہادت کے بعد مولانا ضیاء الرحمان فاروقی سپاہ صحابہ کے سربراہ منتخب ہوئے مولانا ضیاء الرحمان فاروقی کی شہادت کے بعد مولانا محمد اعظم طارق کو سپاہ صحابہ کا سربراہ مقرر کیا گیا سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سپاہ صحابہ پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے بعد مولانا محمد اعظم نے ملت اسلامیہ کے نام سے نئی تنظیم قائم کی تھی اس پر بھی بعد میں پابندی عائد کر دی گئی تھی مولانا اعظم طارق کی شہادت کے بعد مولانا علی شیر حیدری کو تنظیم کا سرپرست مقرر کیا گیا تھا جسے گزشتہ روز شہید کر دیا گیا ۔

واضح رہے کہ سال 2004ء میں علامہ علی شیر حیدری کے والد حاجی محمد وارث جانوری کا قتل ہوا جس میں قلندر بخش جاگیرانیا ور ان کے بھائی اوشاق علی جاگیرانی اور قلندر بخش جاگیرانی کے دو بیٹے اہم ملزمان میں شامل تھے جبکہ علامہ علی شیر حیدری پر حملہ کرنے کے بعد ان کے محافظوں کی جوابی فائرنگ میں حملہ آور اوشاق علی جاگیرانی مارا گیا۔ علامہ علی شیر حیدری کے عقیدتمند دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں خیرپور پہنچ گئے۔

واقعے کی اطلاع جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ا ور عقیدتمند وکارکنان جامعہ حیدر لقمان پہنچنا شروع ہوگئے اور مشتعل کارکنوں نے ریلوے ٹریک پر دھرنا لگاکر ٹریک بند کردیا اور ضلع بھر میں شٹر بند ہڑتال کی گئی جبکہ پولیس اور رینجرز نے گشت شروع کیا اس کے باوجود مشتعل نوجوانوں نے مختلف مقامات پر فائرنگ اور دکانیں توڑ کر نقصان پہنچایا اور املاک کی لوٹ مار بھی کی اطلاعات ہیں۔

ادھر ٹھیڑی کے مقام پر سینکڑوں مشتعل افراد نے قومی شاہراہ پر دھرنا لگاکر شاہراہ بلاک کردی جو علامہ علی شیر حیدری کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ علاوہ ازیں ریلوے ٹریک اکھاڑنے والے واقعے کے بعد ٹرینیں روہڑی اور نواب شاہ ودیگر اسٹیشنوں پر کھری کردی گئی تھیں اور ٹرانسپورٹ نہ چلنے کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آنے وجانے والوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ریلوے اسٹیشن پر ریلوے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ واقعے کا مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔ کراچی میں علی شیر حیدری کے قتل کے خلاف بعض علاقوں میں ہوائی فائرنگ اور پرتشدد احتجاج کے بعد کشیدگی رہی۔ادھر صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد، سکھر اور لاڑکانہ سمیت کئی شہروں میں اہلسنت والجماعت کے کارکنوں نے کاروباری مراکز بند کروا دئیے ہیں۔ بعض شہروں میں ہوائی فائرنگ کی بھی اطلاعات ہیں اور لاڑکانہ کے بعض علاقوں میں ہڑتال رہی۔

مختلف علاقوں سے پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ۔نواب شاہ میں پولیس نے دو افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ علی شیر حیدری کے آبائی شہر خیر پور میں پولیس کے ساتھ نیم فوجی دستے رینجرز کے اہلکاروں نے گشت کیا اور شہر میں داخل ہونے والے افراد کو پوچھ گچھ کرنے کے بعد داخلے کی اجازت دی گئی ضلع خیر پور کے علاقے ٹھیٹری جہاں کالعدم شدت پسند تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ علی شیر حیدری کا مدرسہ ہے وہاں حکام نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر جائیں۔

اطلاعات کے مطابق ناگن چورنگی میں مشتعل لوگوں کے ایک گروہ نے سڑکوں پر نکل کر پتھراوٴ کیا، ٹائر جلائے اور آنے جانے والی گاڑیوں پر ڈنڈے برسائے۔ مشتعل نوجوانوں نے ناگن چورنگی پر ایک پیٹرول پمپ کو نقصان پہنچایا جبکہ تین مسافر بسوں سمیت چار گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اس موقع پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر آنسو گیس پھینکی ہے۔

واقعے کے بعد علاقے میں سخت کشیدگی پائی گئی۔ پولیس کے مطابق علاقے میں جانے والی پولیس پارٹی پر فائرنگ بھی کی گئی ہے۔عینی شاہدین کے بقول علاقے میں واقع مسجد صدیق اکبر کی چھت پر بعض ہتھیار بردار افراد موجود تھے جنہوں نے فائرنگ کی ۔نیو کراچی، سائیٹ، پاک کالونی، اولڈ گولیمار، بلدیہ ٹاوٴن سعید آباد، قائد آباد اور لسبیلہ میں بھی مشتعل نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پر نکل آئیں اور انہوں نے رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک کی آمد ورفت معطل کردی۔

نجی ٹی وی کے مطابق مولانا علی شیر حیدری کے سفاکانہ قتل کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بن کرسڑکوں پر نکل آئے اور ان کے قتل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے انتظامیہ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ جماعت اہل سنت کے کارکنان نے ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلوے ٹریک کو بھی بلاک کردیا ہے جس سے ٹرینوں کی آمدو رفت شدید متاثر ہوئی ۔

پنوعاقل سے این این آئی کے نمائندے کے مطابق اہلسنت والجماعت کے مرکزی سربراہ علامہ علی شیر حیدری، سندھ کے ممتاز نعت خوان امتیاز احمدپھلپوٹہ کے واقعہ شہادت کی خبر پنو عاقل میں پہنچنے پراہلسنت والجماعت میں اشتعال پھیل گیا سینکڑوں کارکن سڑکوں پر نکل آئے اور شہر کو مکمل طورپربند کردیا واقعہ کی اطلاع ملنے پر کتنے ہی کارکن غم سے نڈھال ہوگئے شدید گرمی کے باوجود کارکن شہر بھرکاگشت کرتے رہے۔

بعدازاں سیف اللہ صدیقی ،قاری نذیراحمدسمیجو ،مولانا امداد اللہ ،قاری منیر احمد اوردیگر کی قیادت میں الفاروق مسجد سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جو شہر بھر کاگشت کرنے کے بعد بائجی چوک قومی شاہراہ پر اختتام پذیر ہوئی ریلی کے دوران مرکزی عید گاہ چوک پرکارکن دھرنا لگا کر بیٹھ گئے جو خیر پور پولیس انتظامیہ کے خلاف اوراس المناک واقعہ کیخلاف سخت نعرے بازی بھی کررہے تھے۔

پرتشدد احتجاج کے بعد ان علاقوں میں دوکانیں بند رہیں اور ٹرانسپورٹ بھی معمول سے کم رہی ۔دوسری جانب پاکستان علما کونسل نے کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ علامہ علی شیر حیدری کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیاہے ۔اسلام آباد میں پاکستان علما کونسل کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نصیر الدین نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ علامہ علی شیر حیدری کالعدم تنظیموں سپاہ صحابہ اور ملت اسلامیہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ تھے ۔

۔انہوں نے مولانا اعظم طارق کے قتل اور سپاہ صحابہ و ملت اسلامیہ پاکستان کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اہلسنت والجماعت کے نام سے تنظیم قائم کرلی تھی جس کے وہ سرپرست اعلیٰ تھے۔نصیر الدین نے بتایاکہ علما کونسل کے مرکزی صدر حافظ طاہر اشرفی اور دیگر عہدیداروں نے واقعے کی سخت مذمت کی ہے اورعلامہ علی شیر حیدری کے قتل کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی سازش قرار دیاہے۔انہوں نے بتایاکہ پاکستان علما کونسل نے واقعے پرملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان بھی کیاہے۔

متعلقہ عنوان :