سپریم کورٹ، اٹھارویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی، قرار داد مقاصد میں تبدیلی مجرمانہ غفلت تھی، ضیاءالحق نے آر پی او کے تحت آئین میں جعلسازی کی، آئین کو اصل شکل میں بحال کرنا موجودہ پارلیمنٹ کا کارنامہ ہے، چیف جسٹس

منگل 8 جون 2010 14:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8جون۔2010ء) سپریم کورٹ میں اٹھارویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی ۔ چیف جسٹس نے آج سماعت کے موقع پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ قرارداد مقاصد میں تبدیلی مجرمانہ غفلت تھی اور ضیاءالحق نے آر پی او کے تحت آئین میں جعلسازی کی ، آئین کو اصل شکل میں بحال کرنا موجودہ پارلیمنٹ کا کارنامہ ہے ۔

اٹھارویں ترمیم کی بعض شقوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں سترہ رکنی بینچ نے کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین مقدس دستاویز ہے اور اس میں کوئی جعلسازی نہیں کر سکتا ، ضیاء الحق نے 1985 میں آر پی او کے تحت آئین میں جعلسازی کی تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت کی اسمبلی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا ۔

(جاری ہے)

آر پی او کے ذریعے آئین سے اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے الفاظ حذف کئے گئے تھے ، جس پر حامد خان نے چیف جسٹس کے ریمارکس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کی اسمبلی نے بغیر دیکھے ہی ترمیم پاس کر دی جس کے اسمبلی بھی غفلت کی مرتکب ہوئی تھی ۔

ضیاء الحق نے یہ جعلسازی دانستہ طور پر کی تھی۔ اس موقع پرجسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہاکہ بطور ریاست پاکستان میں اقلتیوں کو ہمیشہ تحفظ دیا گیا۔ چیف جسٹس نے حامد خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ کل آئین کی ترامیم کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلوں کا تجزیہ پیش کریں۔ اس سے قبل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ ججز تقرری کےلئے جوڈیشل کمیشن کا طریقہ کار جنوبی افریقہ سے لیا گیا جہاں صدارتی نظام رائج ہے ۔

۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں جوڈیشل کمیشن صرف مجسٹریٹ کا تقرر کرتا ہے اور برطانیہ میں پارلیمانی رکن کے جوڈیشل کمیشن کا رکن بننے کا اہل نہیں ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا اس سے قبل کبھی سپریم کورٹ نے اس طرح کے مقدمے میں کسی ترمیم کو کالعدم کیا ہے جس پر حامد خان کا کہنا تھا کہ ایسا اس سے پہلے پاکستان میں نہیں ہوا تاہم بھارت میں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے ،عدالت اعظمیٰ کو اس کے تشریح اور جائزے کا حق حاصل ہے ۔ آج درخواست گزار عبدالحفیظ کی جانب سے ایک درخواست پیش کی گئی جس میں کہا گیا کہ 1973 کے آئین کی ماضی کی پارلیمانی بحث کا ریکارڈ فراہم کیاجائے ۔