سپریم کورٹ نے لاکھڑا پاور پلانٹ کا معاہدہ کالعدم قرار دیدیا، وفاق کو درخواست گزاروں کو اپیل کے قابل سماعت ہو نے کے بعد سے اپیل منظور ہو نے تک اٹھنے والے اخراجات ادا کرنے ، حکومت کو ذمہ داران کا تعین کرے کہ ان کیخلاف سول یا فوجداری مقدمات چلانے کا حکم ،معاہدہ مکمل طور پر غیر شفاف ،غیر آئینی اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی کر کے کیا گیا،قومی اثاثوں کو کریانہ اسٹور کے سامان کی طرح غیر قانونی اقدامات کے تحت بیچنے کی اجازت نہیں دے سکتے، لوگ ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، رینٹل پاور کیس کی مثال سامنے ہے،عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا نہ ہی سندھ کے مفادات کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا، سب کچھ اندرون خانہ کیا گیا، کوئی سر مایہ دار اگر خود کوآئین اور قانون سے بالاتر تصور کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ، غیر قانونی اقدامات پر عدالت ایکشن لیتی رہے گی خواہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے ،چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل بنچ کے دوران سماعت ریمارکس ،حکومت نے لاکھڑا پاور پلانٹ کی نجکاری کا فیصلہ موخر کر دیا ہے ، سیکرٹری پانی و بجلی سیف اللہ چٹھہ کا عدالت میں بیان،حکومت کی معاہدے کی انکوائری کر کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کر نے کی یقین دہانی ،عدالت کی وزارت پانی و بجلی کو نجکاری کا فیصلہ موخر کرنے بارے تحریری رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت

بدھ 21 اگست 2013 21:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔21اگست۔ 2013ء) سپریم کورٹ نے مشرف دور حکومت میں ہو نے والا لاکھڑا پاور پلانٹ کا معاہدہ کالعدم قرار دیدیا۔ وفاق کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپیل گزاروں کو اپیل کے قابل سماعت ہو نے کے بعد اپیل منظور ہو نے تک اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جائیں، حکومت ذمہ داران کا تعین کرے کہ ان کے خلاف سول یا فوجداری مقدمات کس طرح چلانے ہیں۔

سماعت کرنے والے فاضل بنچ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ مشرف دور میں کیا جانے والا معاہدہ مکمل طور پر غیر شفاف ،غیر آئینی اور پیپرا رولز کی خلاف ورزی کر کے کیا گیا،قومی اثاثوں کو کریانہ اسٹور کے سامان کی طرح غیر قانونی اقدامات کے تحت بیچنے کی اجازت نہیں دے سکتے، لوگ ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، رینٹل پاور کیس کی مثال سامنے ہے،عوامی مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا نہ ہی سندھ کے مفادات کے تحفظ کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔

(جاری ہے)

سب کچھ اندرون خانہ کیا گیا۔ کوئی سر مایہ دار اگر خود کوآئین اور قانون سے بالاتر تصور کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور ہر کسی کو غلطی کا ارتکاب کرنے پر معاف نہیں کیا جا سکتا، غیر قانونی اقدامات پر عدالت ایکشن لیتی رہے گی خواہ کوئی کچھ بھی کہتا رہے جبکہ حکومت نے معاہدے کی انکوائری کر کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کر نے کی یقین دہانی کرا تے ہوئے سیکرٹری پانی و بجلی سیف اللہ چٹھہ نے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ حکومت نے لاکھڑا پاور پلانٹ کی نجکاری کا فیصلہ موخر کر دیا ہے جس پر عدالت نے وزارت پانی و بجلی کوتحریری حکم نامہ جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

بدھ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عظمت سعید شیخ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی سیکرٹری پانی و بجلی سیف اللہ چٹھہ نے بیان دیا کہ حکومت نے عدالتی فیصلہ آنے تک 4 پاور ہاؤسز کی نجکاری کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو واپڈا کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ لیبر یونینز لاکھڑا پاور پلانٹ سمیت کسی بھی پلانٹ کی نجکاری پر خلاف ہو جائیں گی۔

جب پلانٹ کو واپڈا نے لیز پر دیا تو اس وقت 575 لوگ لاکھڑا پاورپلانٹ کی لیز کے وقت کام کر رہے تھے۔ انہیں فری الیکٹرسٹی اور وہ تمام سہولیات جو سرکاری ملازمین کو فراہم کی جاتی ہیں لاکھڑا پاور پلانٹ سے کسی ملازم کو نکالا نہیں گیا حالانکہ قانون کے مطابق اگر کسی یونٹ کی نجکاری کی جائے تو ملازمین کو ایک سال کے بعد نوکری سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بینچ کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات کا جواب دینا کونسل کی ذمہ داری نہیں ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ واپڈا کے وکیل کے طور پر نہیں۔ ایسوسی ایٹڈ گروپ کی وکالت کر رہے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ لیبر یونین متاثرہ فریق نہیں ہے۔ لاکھڑا پاور پلانٹ لیز کا معاہدہ کرتے وقت لیبر یونین سے کچھ بھی چھپایا نہیں گیا۔

اس طرح کی بڈنگ سے قبل کسی طرح کا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا۔ پیپرا رول48 پر عملدر آمد کیا گی۔ میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام امور سر انجام دیئے گئے۔ اس وقت واپڈا کے پاس پلانٹ کو لیز پر دینے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون کے تحت عوامی مفاد ہر صورت مقدم رکھنا ضروری ہے۔ معاہدہ کرتے وقت نہ تو سندھ حکومت کے مفادات اور نہ ہی عوامی مفاد کو مد نظر رکھا گیا۔

پیپرا رولز پر عملدر آمد کس طرح کروائیں گے۔ اوپن بڈنگ کے لیے اشتہار نہیں دیئے گئے۔ صدر اور وزیر اعظم کے کہنے پر غیر آئینی طریقے سے زبانی کلامی طور پر ہی لاکھڑا پاور پلانٹ لیز پر دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ شفافیت تو درکنار کسی ایک پیپرا رول پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ واپڈا کوئی کریانہ اسٹور نہیں ہے ایک ذمہ دار ادارہ ہے۔ اگر کل کلاں کو کوئی وہاں سے 10 گریڈ اسٹیشن اٹھا کر لے جائے تو کیا واپڈا دیکھتا رہے گا۔

واپڈا کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ اس وقت صدر اور وزیر اعظم نے لاکھڑا پاور پلانٹ کافیصلہ کیا لیکن اس وقت کے چیئر مین واپڈا نے اس پرکوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ اس وقت کے چیئرمین واپڈا نے کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آج کل غلطیاں بہت ہو رہی ہیں۔ غلط فیصلہ کر نے کا اختیار عدلیہ سمیت کسی کو نہیں ہے۔ ہر فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔

کسی جگہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات روکنے کے لیے بند باندھا جائے۔ چیئر مین واپڈا کو بلائیں گے اگر انہوں نے اتنی بڑی غلطی کی ہے تو انہیں اس پر جواب دینا پڑے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے واپڈا کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے آنے والے ریکارڈ کی کچھ رپورٹس کے مطابق واپڈا والے تو کہتے ہیں کہ ہمارے تمام پلانٹ بالکل ٹھیک ہیں ۔

معروبیتی کی رپورٹ میں یہ واضح لکھا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ گروپ نے جو ایک روپے ایکویٹی کے طور پر واپڈا کو واپس دینے کی آفر کی اس کا واپڈا نے نہیں کہا تھا بلکہ یہ ایسوسی ایٹڈ گروپ کی جانب سے از خود آفر کی گئی۔ ایسوسی ایٹڈ گروپ کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ 13 جولائی کو میٹنگ ہوتی ہے۔17 جولائی کو خط لکھا گیا۔21 جولائی کو جواب دیا گیا۔ بطور ایسوسی ایٹڈ گروپ کے وکیل اپنے کیے کا ذمہ دار ہوں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ذمہ داران کا تعین عدالت کرے گی۔ عدالت کے سامنے جو ریکارڈ آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ معاہدہ غیر قانونی تھا۔ وسیم سجاد نے کہا کہ معاشی معاملات میں عدالت کو جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ کوئی اسے ایکٹوازم کہے یا سپرایکٹوازم کہے قانون کے مطابق عدالت اپنا فیصلہ دے گی۔ لاکھڑا پاور پلانٹ لیز پر دینے کا فیصلہ اندرون خانہ کیوں کیا گیا۔

یہ قومی اثاثے ہیں، قانونی لوازمات پورے کیے بغیرعوامی اثاثوں کی بغیراشتہار دیئے نیلانی کرنا غیر آئینی ہے۔ انہیں کسی کے ہاتھ میں تو نہیں دیا جا سکتا۔ واپڈا کے وکیل نے کہا کہ معاہدہ لیز پر دینے سے قبل 8 کمپنیوں کو خط لکھا۔ سب کو نوٹس دیا کہ اگر کوئی لیز میں دلچسپی رکھتا ہے تو حصہ لے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ روپالی کو تو کوئی خط نہیں لکھا نہ ہی اسے لاکھڑا پاور پلانٹ کی لیز کرنے کے فیصلے بارے میں بذریعہ نوٹس آگاہ کیا گیا حالانکہ روپالی بھی لاکھڑا پاور پلانٹ کی لیز حاصل کر نے میں دلچسپی رکھتی تھی۔

شاہد حامد نے کہا کہ 8کمپنیوں کو دوبارہ خط لکھے گئے جس کے بعد حبیب اللہ گروپ کی جانب سے بھی لیز کے معاملے میں دلچسپی کی پیشکش واپڈا کے سامنے آئی۔ حکومت کی جانب سے چیئر مین واپڈا کو ہدایات آئیں لیکن چیئر مین واپڈا نے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کیا۔ صدر اور وزیر اعظم کے کہنے پر معاہدہ ہوا، موجودہ چیئر مین واپڈا بھی یہی کہتے ہیں کہ لاکھڑا پاور پلانٹ کو2006 میں ایسوسی ایٹڈ گروپ کو لیز پر دینے کی ڈیل اس وقت کے حالات کے تحت بہترین ڈیل تھی ۔

اس وقت کے پانی و بجلی کے سیکرٹری نے یہ کہا کہ چونکہ حبیب اللہ گروپ اور ایسوسی ایٹڈ گروپ کی آفرز ایک جیسی تھیں لہٰذا معاملہ نیپرا کے پاس بھجا۔ نیپرا نے معاملہ واپس بھیج دیا پھر صدر اور وزیر اعظم نے فیصلہ کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ صدر بھی فائل کو میرٹ کے مطابق فائلوں پر فیصلہ دیتا ہے۔ ایوان صدر میں فائلیں جاتی ہیں تو وہ قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں پچھلے پانچ سالوں میں ہم نے دیکھا کہ اگر صدر کے پسا کوئی فائل گئی تو اس نے دیکھا کہ یہ کس کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اس موقع پر واپڈا کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ حکومت وقت معاشی امور طے کرتی ہے۔ معاشی معاملات پر فیصلے کر نے کا اختیار حکومت کو حاصل ہوتا ہے عدالت کو نہیں۔ اس وقت کے چیئر مین واپڈا نے آئین اور قانون کے تحت کام کیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے حکومت کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ واپڈا پر صرف ہائیڈل پاور جنریشن اور واپڈا سپلائی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب لاکھڑا پاور پلانٹ کو لیز پر دینے کا واپڈا نے معاہدہ کیا تو اس وقت واپڈا کے اختیارات تھے کہ وہ اگر معاہدہ کرتا ہے تو کرے ۔تمام پراسس کے دوران غیر شفافیت برتی گئی۔ پیپرا رولز کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی گئی۔ایسوسی ایٹڈ گروپ نے پری کوالیفکیشن پراسس میں حصہ نہیں لیا نہ ہی لیز کے لیے کوئی اشتہار دیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت لاکھڑا پاور پلانٹ کو لیز پر دینے کے پراسس کی جانچ پڑتال کرے گی۔

تمام معاملات کی مکمل انکوائری کی جائے گی اور ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔ وزارت پانی و بجلی کے لیگل ڈائریکٹر نے کہا کہ معاہدے کو از سر نو کیا جائے گا اور ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا۔ سابق چیئر مین واپڈا کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس پلانٹ کے لیے سندھ کول ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو کوئلہ فراہم کرتی ہے۔

ابھی تک سندھ کول ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں وفاق کی جانب سے ایک لفظ بھی نہیں بولا گیا نہ ہی سندھ حکومت کے کسی نمائندے نے اپنے مفادات کے تحفظ کی بات کی۔ مقدمے کی سماعت کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا اور ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کر نے کی ہدایت کر دی۔