حلف سے وفاداری نہ کرنے کو ہی غداری کہتے ہیں ، کسی کو پھانسی نہیں دینا چاہتے ، سینیٹر مشاہدہ اللہ ،فوجی مداخلت کا راستہ روکنا چاہتے ہیں ،یہ کیسا ہارٹ اٹیک ہے کہ ہسپتال میں بیٹھ کر پراپرٹی ڈیلنگ کی جا رہی ہے،بلوچستان، فاٹا اور راولپنڈی کے سانحے کے خصوصی حوالے سے موجودہ سیاسی اور سیکیورٹی کی صورتحال پر اظہار خیال

پیر 6 جنوری 2014 22:57

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6 جنوری ۔2014ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر سینیٹر مشاہدہ اللہ نے کہا کہ حلف سے وفاداری نہ کرنے کو ہی غداری کہتے ہیں کسی کو پھانسی نہیں دینا چاہتے فوجی مداخلت کا راستہ روکنا چاہتے ہیں یہ کیسا ہارٹ اٹیک ہے کہ ہسپتال میں بیٹھ کر پراپرٹی ڈیلنگ کی جا رہی ہے۔ پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان، فاٹا اور راولپنڈی کے سانحے کے خصوصی حوالے سے موجودہ سیاسی اور سیکیورٹی کی صورتحال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال میں بہتری ہوئی ہے، ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے، غداری کا مطلب حلف کی پاسداری نہ کرنا ہے، دنیا کے تمام ممالک آئین کو مقدس مانتے ہیں، غداری کے مقدمے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ کوئی طالع آزما آئین کو نہ توڑے اور نئی پارٹیاں آئی ایس آئی کے دفتر میں نہ بنیں، وزیراعظم کو جیلوں میں بند نہ کیا جائے، تب جرأت کا مظاہرہ نہ کرنے والے آج کہہ رہے ہیں کہ 12 اکتوبر سے احتساب کیا جائے، بہت سے لوگوں کی سیاست خفیہ ایجنسیوں کے بغیر نہیں چلتی، ان کے بغیر یہ وزیر نہیں بن سکتے، یہ کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں، وزیراعظم کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے، اگر 12 اکتوبر سے احتساب ہونا چاہیئے تو یہ اپنے دور میں کرتے، تب کسی نے روکا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ احتساب کیا ہی نہ جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے، نواز شریف اس ملک و قوم کی اور آئین اور اداروں کی جنگ لڑ رہے ہیں، مشرف کے ساتھیوں کو چاہیے تھا کہ وہ کراچی جا کر اس کا استقبال کرتے، اگر ڈرتے ورتے نہیں تو ہسپتال کیوں جا رہے ہیں، اس وقت تو مکے دکھاتے تھے، آج مشرف ہسپتال میں لیٹ کر لندن میں صہبا مشرف کے پلاٹ بیچ رہا ہے، پراپرٹی ڈیلنگ کر رہا ہے، یہ کیسا ہارٹ اٹیک ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کے پاس کیس ہے، عدالت میں آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہو رہی ہے، قوم متحد ہے، لال مسجد کی بچیوں کو مار کر لندن میں فلیٹ خریدے گئے، آج وہی پلاٹ بیچے جا رہے ہیں، آج وہ شخص مکافات عمل کا شکار ہو رہا ہے، ہمارے اندر انتقام نہیں، ابھی تو مشرف کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں، چک شہزاد میں ایک ارب، دبئی میں ایک ارب کا مکان ہے، 22 گریڈ کے ملازم نے جس کی اتنی جائیدادیں ہیں ایک روپے کا ٹیکس نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈکٹیٹر کا ساتھ نہ دیا جائے، بلاول بھٹو زرداری فرما رہے ہیں بلا دودھ پی گیا، قدم بڑھاؤ نواز شریف اور خورشید شاہ کہہ رہے ہیں کہ احتساب 12 اکتوبر سے شروع کیا جائے، یہ بھی عجیب سی بات ہے۔