بجلی کی تقسیم ٹرانسمیشن اور جنریشن کمپنیوں میں کام کر نے والے ملازمین سالانہ تین کروڑ 97لاکھ سے زائد یونٹ مفت استعمال کرتے ہیں ، وزیر مملکت پانی وبجلی عابد شیر علی ،ملازمین کے مفت یونٹ ختم کرتے ہی تووہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں ، ملازمین کی مراعات بند کرنی ہے تو تمام اداروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے ،سینٹ میں اظہار خیال

بدھ 15 جنوری 2014 22:04

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 جنوری ۔2014ء) سینٹ کو بتایاگیا ہے کہ بجلی کی تقسیم ٹرانسمیشن اور جنریشن کمپنیوں میں کام کر نے والے ملازمین سالانہ تین کروڑ 97لاکھ سے زائد یونٹ مفت استعمال کرتے ہیں  بجلی سبسڈی 261ارب روپے تک بڑھ سکتی ہے جبکہ وزیر مملکت پانی وبجلی عابد شیر علی نے کہاہے کہ اگر ملازمین کے مفت یونٹ ختم کرتے ہی تووہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیں  ملازمین کی مراعات بند کرنی ہے تو تمام اداروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے بدھ کو سینٹ کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دور ان وزیر مملکت برائے پانی وبجلی عابدشیر علی نے کہاکہ بجلی کی تقسیم ٹرانسمیشن اور جنریشن کمپنیوں میں کام کر نے والے ملازمین سالانہ تین کروڑ 97لاکھ سے زائد یونٹ مفت استعمال کرتے ہیں موجودہ وقت میں ڈسٹری بیوشن کمپنیز  جینکوز اور این ٹی ڈی سی ایل میں ایک لاکھ 87ہزار 126ملازمین کام کررہے ہیں بیسویں گریڈ کے افسر کو 1320یونٹ سال کے مفت دیئے جاتے ہیں جس طرح دیگر وفاقی اداروں میں مراعات ہیں اسی طرح واپڈا ملازمین کیلئے بھی مراعات ہیں یہ نظام پرانا چلا آرہا ہے اگر ان کو چھیڑتے ہیں تو ہڑتال پر چلے جاتے ہیں ان کے بھی بچے ہیں سیاسی باتیں کر ناآسان ہیں یہ ایوان سفارش کر دے تو پھر تمام ملازمین کی مراعات واپس لی جائیں اور سب کے ساتھ ا یک جیسا سلوک کیا جائے انہوں نے بتایاکہ سبسڈی کی رقم 261ارب روپے تک بڑھ سکتی ہے جبکہ بجٹ میں 226ارب روپے مختص کئے گئے ہیں انہوں نے کہاکہ خیبر پختون خوا کے 283فیڈر 53فیصد نقصان پر چل رہے ہیں اگر ان کو ایک گھنٹہ بھی چلائیں تو 15لاکھ روپے حکومت کو نقصان کی مد میں ادا کر نا پڑتے ہیں انہوں نے کہاکہ ڈسکوز کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق کوٹہ دیا جاتا ہے مسلم لیگ (ن)کی حکومت جب سے آئی ہے اس نے 1700میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کی ہے اور بجلی کی چوری کی روک تھام کیلئے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک آر ڈیننس جاری کیا ہے جس سے چوری پر قابو پانے میں مدد ملے گی انہوں نے کہاکہ گزشتہ حکومت اگر ملک میں ڈیم بناتی تو آج انہیں سوال پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی ہمیں صوبائی تعصب سے نکل کر پاکستان کی بات کر نی چاہیے جس صوبے کی ضرورت زیادہ ہو اسے زیادہ بجلی فراہم کی جاتی ہے ۔

متعلقہ عنوان :