طالبان سے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ ہے، سید منور حسن،نواز شریف دوبارہ اے پی سی بلائیں اور مذاکرات کیلئے حمزہ شہباز کو مینڈیٹ لیکر دیں،پرویز مشرف کے معاملے میں ملک کو لاقانونیت کی دلدل میں دھکیلا جارہا ،سیاسی جماعتیں اس کیخلاف عوام کو متحرک اور ایک پلیٹ فارم پر متحد کریں،امیر جماعت اسلامی

جمعرات 16 جنوری 2014 20:37

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16 جنوری ۔2014ء) امیرجماعت اسلامی سید منورحسن نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ ہے ، مذاکرات میں میاں نواز شریف سنجیدہ ہوتے تو لوگوں کو نامزد کرنے کی بجائے ان سے ملاقات اور اس اہم ترین قومی مسئلے پر مشاورت کرکے کوئی لائحہ عمل بناتے،حمزہ شہباز کے کل کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ حمزہ شہباز قومی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور زیادہ فعال نظرآتے ہیں، نواز شریف کو چاہئے کہ حمزہ شہباز کو طالبان سے مذاکرات کیلئے مقررکردیں توشاید مسئلے کا کوئی حل نکل آئے۔

نجی ٹی وی کو انٹر ویو میں نواز شریف نے کہا کہ نواز شریف دوبارہ اے پی سی بلائیں اور مذاکرات کیلئے حمزہ شہباز کو مینڈیٹ لیکر دیں۔

(جاری ہے)

حکمرانوں نے مئی کے انتخابات میں ملنے والے عوامی اور اے پی سی سے حاصل ہونے والے قومی مینڈیٹ کو امریکی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔حکومت کے غیرسنجیدہ رویے کے خلاف آخر مولانا سمیع الحق بھی پھٹ پڑے ہیں۔اگر حکومت غیر سنجیدگی چھوڑ دے اور امریکی دباؤ کی پرواہ نہ کرے تو مذاکرات کامیاب اور امن قائم ہو سکتاہے ۔

اے پی سی کی متفقہ قرار داد کو پس پشت ڈالنے اور مذاکرات میں تاخیر اور لیت و لعل سے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں ۔ پرویز مشرف کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سید منور حسن نے کہا کہ پرویز مشرف کے معاملے میں ملک کو لاقانونیت کی جس دلدل میں دھکیلا جارہا ہے سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف عوام کو متحرک اور ایک پلیٹ فارم پر متحد کریں۔

آئین توڑنے اور قانون کا مذاق اڑانے والے جرنیلوں کو ہمیشہ توپوں کی سلامی دیکر رخصت کیا گیا جس سے ملک میں آئین کی بالادستی کا تصور فنا کے گھاٹ اتر گیا۔عدل و انصاف کے تصور کو بحال کرنے کیلئے آئین توڑنے والوں کی قبروں کا بھی ٹرائل کرنا پڑے تو مضائقہ نہیں ۔ جنہوں نے ایک بار آئین توڑا انہیں ایک بار اور جنہوں نے دو بار آئین توڑا انہیں دوبار تختہ دار پر لٹکانا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی نظر میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں،عدل وانصاف کی زد میں جو بھی آئے اسے سزا ملنی چاہئے۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ لندن میں بیٹھ کر قومیت اور لسانیت کی بنا پر قانون کو نیچا دکھانے کی باتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ مجرم ہیں اور قانون کی گرفت سے بچنے کیلئے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ،انہیں خود تو ملک میں آنے کی جرأت نہیں ہوتی،عصبیت کی بنا پر دوسرے مجرموں کوبچانے کی کوششیں انتہائی شرمناک اور حقیر ہیں۔

نجکاری کے متعلق ایک سوال کے جواب میں سید منورحسن نے کہا کہ نجکاری کا مسئلہ پارلیمنٹ میں رکھنا چاہئے ،تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نجکاری کے خلاف ہیں ،آئی ایم ایف سے قرضوں کی بھیک حاصل کرنے کیلئے گورنر اسٹیٹ بنک اور وزیر خزانہ نے جھوٹ بولا ہے کہ وفاقی کابینہ اور چاروں صوبے نجکاری پر متفق ہیں ۔حالانکہ سندھ اور خیبر پختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ برملا اور دوٹوک الفاظ میں نجکاری کی مخالفت کرچکے ہیں ،انہوں نے کہا کہ حکومت نجکاری کے حوالے سے اچھی وکٹ پر نہیں کھیل رہی ،حکمران لاکھوں خاندانوں کو بے روز گاری کی بھٹی میں پھینکنا چاہتے ہیں اگر وہ اپنے دعوؤں میں سچے اور ملک و قوم کے خیر خواہ ہیں تو گزشتہ ادوار میں پرائیویٹائز کئے گئے قومی اداروں سے حاصل ہونے والی آمدن کا حساب دیں اور اس پر ایک جائزہ کمیشن بٹھایا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور نجکاری کے تلخ حقائق قوم کے سامنے آسکیں ،انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی آئی ایم ایف کے قوم دشمن ایجنڈے کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

جماعت اسلامی نے کراچی اور لاہور میں اینٹی نجکاری قومی کانفرنسیں منعقد کیں جن میں سیاسی و مذہبی جماعتیں اور مزدوروں کی تمام تنظیموں نے نجکاری کی شدید مخالفت کی ہے ۔حکمرانوں نے مزدور کش رویہ ترک نہ کیا اور آئی ایم ایف کی خوشنودی پر لگی رہی تو جماعت اسلامی عوام کو سڑکوں پر لے آئے گی ۔