قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کی کثرت رائے سے منظور ی دیدی ،اپوزیشن کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سلامتی کیلئے خطرہ بننے والوں کو گولی مارنے کا اختیاردئیے جانے پرتحفظات، وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان کا اپوزیشن اراکین کمیٹی کی کئی تجاویز سے اصولی اتفاق ، بل میں شامل کرنے سے انکار ۔ تفصیلی خبر

منگل 21 جنوری 2014 21:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21 جنوری ۔2014ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کی کثرت رائے سے منظوری دیدی،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والوں کے خلاف پیشگی حراست اور گولی مارنے کا اختیاردئیے جانے پراپوزیشن کے تحفظات ، وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے اپوزیشن اراکین کمیٹی کی کئی تجاویز سے اصولی اتفاق کیا مگر بل میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔

منگل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین رانا شمیم احمد خان کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان ، نیکٹا اور وزارت داخلہ کے حکام و اراکین کمیٹی نے شرکت کی۔ اجلاس میں تحفظ پاکستان آرڈیننس زیر بحث لایا گیا ۔

(جاری ہے)

وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے کمیٹی اراکین کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی سلامتی کو دہشت گردی جیسے خطرات سے غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے ۔

پاکستان میں امن وا مان کی صورت حال بہتر بنانے کیلئے غیر معمولی قانونی سازی کی ضرورت ہے ۔ آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن نبیل گبول کا کہنا تھا کہ پیشگی فائر کرنے اختیار پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو” لائسنس ٹو کل “دینے کے مترادف ہے ۔ حکومت کالا قانون پاس کروانا چاہتی ہے کسی بھی سیاسی احتجاج کیلئے جمع ہونیوالے سیاسی کارکنوں پر ایک پولیس آفیسر گولی چلوا سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ پیشگی وارنٹ کے اختیارات کا سیاسی استعمال ہونے کا خطرہ ہے ایسے قانون سے سیاسی جماعتوں اور پھر جمہوری حکومت تک کو فارغ کر دیا جا سکے گا۔ جبکہ پیشگی گرفتاری کے اختیار سے مسنگ پرسنز کا معاملہ مزید گھمبیر ہو جائے گا انہوں نے کہا کہ حکومت دئیے گئے اختیارات کو کیموفلاج کر رہی ہے۔سائبر کرائمز کو آرڈیننس سے نکلا جائے کیونکہ اس کیلئے الگ سے بل زیر بحث ہے۔

مسلم لیگ ن کی رکن تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ کراچی میں امن و امان کا معاملہ اسی لئے خراب ہے کہ پولیس کمزور ہے اور رینجرز کو ٹیک اوور کرنا پڑا ہے ۔ سری لنکا ، آئر لینڈ اور حتی کے بھارت میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی قانون سازی کی گئی ، حکومت اور اپوزیشن کو متفقہ طور پر تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء کو منظور کرنا چاہیئے۔ایم کیو ایم کے رکن آصف حسین اور نعیمہ کشور خان نے موقف اختیار کیا کہ اس آرڈیننس میں ملزم کو اپیل کا سپریم کورٹ کے فورم پر دیا گیا ہے ، ہائیکورٹ کے فورم پر بھی اپیل کا حق دیا جانا چاہیئے جبکہ اپیل کرنے کی معیاد کو پندرہ دن سے بڑھا کر تیس دن کیا جانا چاہیئے۔

پی ٹی آئی کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ آرڈیننس میں جوائینٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے اراکین کے رینک کا تعین کیا جانا چاہیئے جبکہ خصوصی عدالتوں میں تعینات کئے جانے والے ججوں کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 65 سے 70سال متعین کی جائے۔انہوں نے کہا کہ ملزم کی شناختی کارڈ کی شق سے پاکستان میں رہنے والے غیر قانونی تارکین وطن ، بنگالی ،برمی ، اور افغان مہاجرین سب دہشت گردی اور پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ بننے والوں میں شامل ہو جائیں گے ۔

وزیر مملکت بلیغ الرحمان نے کمیٹی اراکین کے تحفظات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکیوں پر ہو گا جو ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بن رہے ہونگے ۔ سب غیر ملکی اس کی زد میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہاکہ خصوصی عدالتوں کیلئے ججوں کی عمر کی کم سے کم حد کا تعین کیا گیا ہے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد کی تجویز سے وہ اصولی طور پر اتفاق کرتے ہیں انہوں نے اپوزیشن اراکین کمیٹی کی تجاویز سے اصولی اتفاق کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں بل کی منظور کے مرحلہ پر ترامیم پیش کرنے کا مشورہ دیا تاہم بل میں ان تجاویز کو شامل کرنے سے انکار کیا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ پولیس کو گولی مارنے کا اختیار اسی صورت میں ہوگا جب پولیس کو یقین ہو کہ ملزم سے شہریوں کی جان و مال و املاک کو خطرہ ہے اور پولیس افسر کو اس ضمن میں عدالت میں اپنے اقدام کو ثابت کرنا پڑے گا۔ تین گھنٹے سے زائد بحث کے بعدچیئرمین قائمہ کمیٹی نے اراکین کی رائے حاصل کرنے کے بعد بل کو کثرت رائے سے منظور کرنے کا اعلان کیا جبکہ چیئرمین رانا شمیم نے کمیٹی اراکین کی تجاویز اور اختلافی نکات کو بل کے ساتھ ایوان میں زیر بحث لانے کی بھی ہدایت دی۔