عدلیہ اب اتنی مضبوط ہے کہ آمریت کاکوئی امکان نہیں ہے،چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ ،آزاد عدلیہ نے بڑے مشکل دور میں سخت ترین فیصلے دئیے ہیں ،تسلسل آئندہ بھی چلتا رہے گا،جسٹس دوست محمدخان کاتقریب سے خطاب

بدھ 22 جنوری 2014 21:43

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22 جنوری ۔2014ء) پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا ہے کہ عدلیہ اب اتنی مضبوط ہے کہ آمریت کاکوئی امکان نہیں ہے، عدلیہ کی بحالی کے لئے وکلاء نے جان ومال کی قربانیاں دیں ،آزاد عدلیہ نے بڑے مشکل دور میں سخت ترین فیصلے دئیے ہیں اور یہ تسلسل آئندہ بھی چلتا رہے گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار خیبر پختونخوا بار کونسل کی جانب سے ان کے اعزازمیں دی جانے والی الوداعی اور پشاور ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس فصیح الملک کے اعزاز میں دی جانے والے ویلکم پارٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ دوست محمد خان نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی کے لئے وکلاء نے نہ صرف جان ومال کی قربانیاں دیں بلکہ وکلاء کو زندہ جلایا گیا اور دھماکوں سے اڑا یا گیا لیکن تحریک پاکستان کے بعد وکلاء نے سب سے بڑی تحریک چلا کر عدلیہ کو بحال کرایا اور عدلیہ کی بحالی کے بعد عوام کااس پر اعتماد بڑھ گیا ہے اس لئے لوگ عدالتوں کا رخ کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ درج مقدمات کی شرح 200فیصد سے تجاوز کر گئی ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد عدلیہ نے بڑے مشکل دور میں سخت ترین فیصلے دئیے ہیں اور یہ تسلسل آئندہ بھی چلتا رہے گا انہوں نے کہا کہ ادارے جب مضبوط ہوں گے تو ایک شخصیت کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ نظام اب اتنا مضبوط ہوگیا ہے کہ کرپشن اور غیر قانونی عناصر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ قائد اعظم کا بہت جلد انتقال ہوا جس کی وجہ سے ملک میں لیڈر شپ کا فقدان پیدا ہوگیاجبکہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آمریت کی بنیاد کہاں اور کب رکھی گئی سب سے پہلے جنرل برکی کے دور میں لاہور ڈویژن میں منی مارشل لاء لگایا گیا اس وقت اعلیٰ عدلیہ محفوظ نہیں تھی اب چونکہ 1973کے آئین کے آرٹیکل6میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین توڑنے میں جوکوئی بھی کسی آمر کی مدد کرے یااس کے اقدامات کو جائز قرار دے وہ بھی اس کے زمرے میں آئیں گے چیف جسٹس نے کہا کہ میرے جانے پر طاقتور لوگ خوش اور غریب لوگوں کا دل خفہ ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے بعد آنے والی ٹیم مضبوطی اور بہادری سے کام کرے گی اور جہاں کہیں کسی کا حق چھینا جائے گا عدلیہ وہاں مداخلت کریگی۔