امریکہ کو دوٹوک موقف سے آگاہ کردیا ،شکیل آفریدی کو رہا نہیں کیا جائیگا،سیکرٹری دفاع آصف یاسین ، دھرنا سیاسی معاملہ ہے ،بین الاقوامی معاہدے کے تحت نیٹو سپلائی جاری رکھنے کے پابند ہیں ،ڈرون حملوں بارے امریکہ کو آگاہ کردیا ، سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ،سینٹ قائمہ کمیٹی برائے دفاع نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمین ڈی ایچ اے کو فروخت کرنیکی ڈیل کی رپورٹ طلب کر لی ،راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ میں پلاٹس کے الاٹیوں کا معاملہ وزارت دفاع اور پنجاب حکومت کے اجلاس تک مئوخر کردیا گیا

جمعرات 23 جنوری 2014 18:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 جنوری ۔2014ء) سیکرٹری دفاع آصف یاسین نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنا سیاسی معاملہ ہے بین الاقوامی معاہدے کے تحت نیٹو سپلائی جاری رکھنے کے پابند ہیں ،ڈرون حملوں بارے امریکہ کو دوٹوک موقف سے آگاہ کردیا ۔شکیل آفریدی امریکی مطالبہ پر رہا نہیں کیا جائیگا،سینٹ قائمہ کیمٹی برائے دفاع نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمین ڈی ایچ اے کو فروخت کرنیکی ڈیل کی رپورٹ طلب کر لی ، راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ میں پلاٹس کے الاٹیوں کا معاملہ وزارت دفاع اور پنجاب حکومت کے اجلاس تک مئوخر کردیا گیا۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین کی زیر صدارت منعقد ہو ا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سیکرٹری دفاع آصف یاسین ،ڈی ایچ اے کراچی کے حکام میجر جنرل مظہر سعیداور بریگیڈئیرعبداللہ و اراکین کمیٹی نے شرکت کی۔ اجلاس میں سیکرٹری دفاع آصف یاسین نے پاک امریکہ دفاعی مشاورتی اجلاس کے بائیسویں اجلاس کے حوالے سے بریفنگ دی ۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ امریکہ کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا ۔امریکہ نے خود ایک اسرائیلی جاسوس کو کئی سالوں سے قید کر رکھا ہے مگر شکیل آفریدی جو ایک سی آئی اے جاسوس ہے کو چھوڑنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے امریکی امداد کو شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے کی مذمت کرتے ہیں ۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ریمن ڈیوس ایک سی آئی اے کنٹریکٹر تھا مگر اسے سفارتکار قرار دے کر پاکستان سے رہا کروا لیا گیا انہوں نے کہا افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے مرحلہ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی دفاعی ساز و سامان کی منتقلی کا عمل ہونا افغانستا ن سے ساڑھے سات لاکھ فوجی سامان کے کنٹینرزواپس جانے ہیں اور ان کنٹینرز کا 70فیصد پاکستان کے راستے واپس جائیگا ۔

ایسے حالات میں امریکہ کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جا نا چاہئے۔اجلاس میں سیکرٹری دفاع آصف یاسین نے پاک امریکہ دفاعی مشاورتی گروپ کے اجلاس کی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاک امریکہ دفاعی مشاورتی گروپ کا بیس سال میں یہ بائیسواں اجلاس تھا جس میں ڈپٹی سیکرٹری دفاع امریکہ نے امریکی وفد کی قیادت کی جبکہ چک ہیگل نے خصوصی طور پر افتتاحی اجلاس میں شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایسے اہم وقت پر ہوا جب پاکستان میں نئی جمہوری حکومت قائم ہوئی ہے اور وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے دوران پاک امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات بحال ہوئے ہیں اور امریکہ و نیٹو افواج کے افغانستان کے انخلاء کا مرحلہ آنے والا ہے ۔ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ انہوں نے بتایا کہ امریکی حکام پر واضح کیا ہے کہ مستحکم اور پرامن افغانستان نہ صرف علاقے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔

اراکین کمیٹی کے سوالات کے جواب میں سیکرٹری آصف یاسین نے بتایا کہ ابھی تک امریکی حکام خود تعین نہیں کر پائے کہ2014ء میں نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد کتنی امریکی فوج افغانستان میں رہیگی ۔ انہوں نے بتایا کہ 2014ء انخلاء کے بعد امریکی افواج افغانستان میں اسی صورت قیام کر سکے گی اگر افغان حکومت اور عوام انہیں اجازت دیگی کیونکہ افغانستان ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے۔

اگر 2014ء کے بعد افغانستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی تو اس سے پاکستان بھی متاثر ہوگا ، پاکستان پر مزید افغان مہاجرین کا بوجھ پڑے گا۔ پاک امریکہ دفاعی مشاورتی گروپ کے اجلاس میں امریکہ دفاعی حکام پر 2014 ء میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال پر پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا گیا ۔ امریکہ حکام کو واضح طور پر ڈرون حملے بند کرنے کا موقف پیش کیا گیا جو دہشتگردی کیخلاف جنگ کو متاثر کرنے کا باعث ہیں ۔

آج کل ڈرون حملے کم ہوئے ہیں شائد امریکہ نے پاکستان کی بات سن لی ہے یا پھر انہیں ٹارگٹ ڈھونڈنے میں مشکلات آرہی ہو نگی۔ سیکرٹری دفاع نے کہا امریکی دفاعی حکام کو بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافہ پر تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بھارتی دفاعی بجٹ میں اضافہ پاکستان کے کل دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے امریکی حکام کو یہ بھی بتایا ہے کہ بھارت کیسے چین پر حملہ کر سکتا ہے جبکہ اس کے پاس ہمالیہ کو پار کرنے کے لئے دفاعی وسائل ہی نہیں ۔

2014ء میں افغانستا ن سے انخلاء کے مرحلے پر پاکستان کو امریکی دفاعی سامان کی فراہمی کے بارے میں استفسار پرسیکرٹری دفاع آصف یاسین نے بتایا کہ امریکی سامان لینے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائیگا بہت سا دفاعی سامان اور گاڑیاں ہمارے استعمال کے قابل نہیں ہونگی کیونکہ ان کے سپیئر پارٹس نہیں مل سکیں گے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگیوں کے حوالے سے امریکی نظام کے مطابق معاملات درست کئے ہیں سکورٹنی امریکہ کا حق ہے تاہم اب کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ادائیگیوں کی ترسیل کو سالوں سے تین سے چھ ماہ کی مدت میں امریکہ سے کلیئر کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

سعودی وزیر کے حالیہ دور پاکستان کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی کے استفسار پر کہ کیا پاکستانی افواج کا مشرق وسطی ، شام یا سعودی عرب میں کوئی کردار بن رہا ہے ؟ سیکرٹری دفاع نے کہا کہ شام یا سعودی عرب میں پاک فوج کی خدمات نہیں دی جا رہیں نہ ہی وہاں پاک فوج کا کوئی کردار بن رہا ہے ۔ سینیٹر حاجی عدیل کے نیٹو سپلائی کیخلاف دھرنا بارے سوال کے جواب میں سیکرٹری دفاع نے کہا کہ نیٹو سپلائی کیخلاف دھرنا سیاسی معاملہ ہے پاکستان نیٹو سپلائی کیلئے بین الاقوامی معاہدے کا پابند ہے اور نیٹو سپلائی پاکستان کے راستے جاری رہیگی ۔

دریں اثناء صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سیکرٹری آصف یاسین نے کہا کہ شکیل آفریدی کے معاملہ پر پاکستان کا دو ٹوک موقف ہے کسی صورت شکیل آفریدی کو امریکی مطالبے پر رہا نہیں کیا جائیگا ۔ شکیل آفریدی کا معاملہ عدالتی ہے۔انہوں نے کہا27جنوری کو پاک امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کیلئے پاکستان وفد کے ساتھ جار ہے ہیں اور پاکستان کا موقف دو ٹوک انداز میں پیش کرنے اور امریکی سوالات کے جواب دینے کیلئے بھرپور تیار ہیں ۔

قبل ازیں قائمہ کمیٹی اجلاس میں راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ میں 25پلاٹس کی الاٹوں کو تعمیرات کرنے کی اجازت نہ دئیے جانے کے حوالے وضاحت کرتے ہوئے سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ ان پلاٹوں کی نیلامی پنجاب حکومت نے کی تھی مگر ان پلاٹس پر تعمیر آرمی ہاؤس کے قریب ہونے کے باعث سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں عدالتی حکم پر روکی گئی ہے تاہم تعمیرات کی اجازت نہ دئیے جانے کی صورت میں الاٹیوں کو پلاٹس کی قیمت کی ساڑھے بارہ فیصد سالانہ سود کے ساتھ ادائیگی کے حوالے سے پنجاب حکومت سے بات چیت جاری ہے اس حوالے سے فروری میں اجلاس طے ہے ۔

جس پر چیئرمین کمیٹی نے معاملہ کو اس اجلاس کے بعد تک مئوخر کر دیا ۔ اجلاس میں کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھاٹی کی زمین ڈی ایچ اے کو فروخت کئے جانے کا معاملہ بھی زیر غور آیا ۔ سینٹر فرحت اللہ بابر نے کمیٹی کو بتایا کہ کے پی ٹی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی ہزاروں ایکڑ اراضی اڑھائی روپے مربع میٹر کی قیمت پر ڈی ایچ اے کو فروخت کی گئی جبکہ معاہدہ میں یہ شق بھی شامل تھی کہ ڈی ایچ اے پلاٹس ڈویلپمنٹ کے بعد پورٹ قاسم اور کے پی ٹی حکام کو فراہم کریگی جس سے تاثر پیدا ہوا کہ ڈیل میں مفادات اٹھائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو زمین کی لیز ٹرانسفر کرنے کا اختیار ہی نہیں تھا ۔ سیکرٹری دفاع آصف یاسین نے کہا کہ اگر کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی نے زمین ڈی ایچ اے کو سستی اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فروخت کی ہے تو اس کے ذمہ دارڈی ایچ اے نہیں ۔ جس پر اراکین کی رائے پر چیئرمین کمیٹی نے ڈی ایچ اے کو فروخت کی گئی زمین کی مکمل ڈیل آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کردی ۔

جبکہ ائیرپورٹ سیکیورٹی فورس میں سیکیورٹی آفیسرز اور اسسٹنٹ سیکیورٹی آفیسرز کی پوسٹوں کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے چیئرمین نے ہدایت کی کہ اسٹیبلشمنٹ و کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملہ پر قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے رکن فرحت اللہ بابر کو خصوصی دعوت دیکر بلایا جائے ۔