وفاقی حکومت نے دہشتگردی کیخلاف آپریشن کیلئے اندرونی سلامتی لائحہ عمل تیار کرلیا،دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے سول آرمڈفورسز کے ایک لاکھ ترپن ہزارنوے آفیسرز اوراہلکاروں کی قوت کو بروئے کار لانے کافیصلہ ، ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس ،نادرا ، سول ڈیفنس، ایئرونگ کے اداروں کی خدمات کو استعمال میں لایاجائیگا ، پاکستان کی26 مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کامربوط نظام کیاجارہا ہے ،صوبائی اورضلعی سطح پر فاسٹ رسپانڈیونٹس کو دہشتگردوں کی نشاندہی پر کارروائی کیلئے تربیت دی گئی ، القاعدہ ، تحریک طالبان پاکستان وافغانستان ،لشکرجھنگوی، کالعدم فرقہ وارانہ تنظیمیں ،بھارتی وبیرونی خفیہ عناصر کو اندرونی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ،سیکیورٹی پالیسی کی منظوری آئندہ کابینہ کے اجلاس میں دی جائے گی

جمعرات 23 جنوری 2014 19:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23 جنوری ۔2014ء) دہشتگردی کیخلاف آپریشن کیلئے وفاقی حکومت نے اندرونی سلامتی لائحہ عمل تیار کرلیا ،دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے حکومت نے سول آرمڈفورسز کے ایک لاکھ ترپن ہزارنوے آفیسرز اوراہلکاروں کی قوت کو بروئے کار لانے کافیصلہ کیا ہے ،دہشتگردی پرقابو پانے کیلئے ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس ،نادرا ، سول ڈیفنس، ایئرونگ کے اداروں کی خدمات کو بھی استعمال میں لایاجائیگا جبکہ پاکستان کی26 مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کامربوط نظام کیاجارہا ہے صوبائی اورضلعی سطح پر فاسٹ رسپانڈیونٹس کو دہشتگردوں کی نشاندہی پر کارروائی کیلئے تربیت دی گئی ہے جبکہ القاعدہ ، تحریک طالبان پاکستان وافغانستان ،لشکرجھنگوی، کالعدم فرقہ وارانہ تنظیمیں ،بھارتی وبیرونی خفیہ عناصر کو اندرونی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے،سیکیورٹی پالیسی کی منظوری آئندہ کابینہ کے اجلاس میں دی جائے گی جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیاجائیگا ۔

(جاری ہے)

وزارت داخلہ کی دستاویز کے مطابق حکومت نے ملک میں دہشتگردی پرقابو پانے کیلئے اپنا وژن ترتیب دیا ہے جس کے تحت فاٹا اورخیبرپختونخوا میں تحریک طالبان، القاعدہ، لشکرجھنگوی اورغیرملکی مدد رکھنے والے دہشتگرد گروپوں کو خطرہ قرار دیا گیا ہے وزارت داخلہ کی دستاویز کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں القاعدہ ، تحریک طالبان اورلشکرجھنگوی کالعدم تنظیمیں دہشتگرد حملے کرسکتی ہیں گلگت بلتستان میں تحریک طالبان پاکستان ،کالعدم فرقہ وارانہ گروپوں اورلشکرجھنگوی سے دہشتگردی خطرات لاحق ہیں جبکہ آزاد جموں وکشمیر میں بھارتی مدد رکھنے والے دہشتگرد خطرہ ہیں دستاویز کے مطابق پنجاب میں تحریک طالبان ،لشکرجھنگوی اورکالعدم تنظیمیں دہشتگرد حملے کرسکتی ہیں صوبہ سندھ میں تحریک طالبان پاکستان ،لشکرجھنگوی، القاعدہ،لسانی دہشتگرد تنظیمیں، جرائم پیشہ مافیا اورٹارگٹ کلر اندرونی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں القاعدہ ،تحریک طالبان پاکستان ،لشکرجھنگوی ، بلوچ انتہاپسند گروپ، بی آر اے، بی این پی، لشکربلوچستان ،بی ایل یو ایف، بی ایم ڈی ٹی، بی بی پی اے، بی ڈبلیو ایل اے ، بی آر پی اے، بی این ایل اے ، یو بی اے، بی ایل ایف وغیرملکی مدد رکھنے والے عناصر پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں ۔

دستاویز کے مطابق پاکستان کی مشرقی اورمغربی سرحدوں سے دہشتگردوں اوراسلحہ کی ترسیل ہوتی ہے جس میں سرحدوں کے آر پار منظم جرائم پیشہ گروپ متحرک ہیں دستاویز میں کہاگیا ہے کہ افغانستان میں ایساف اورنیٹو افواج کی موجودگی اورافغانستان میں بدامنی سے پاکستان کی سلامتی متاثر ہورہی ہے جبکہ بھارت سے کشمیر کے معاملہ پر سرد جنگ بھی پاکستان میں دہشتگردی کا موجب ہے ۔

دستاویز کے مطابق دہشتگردی پرقابو پانے اورپاکستان کی اندرونی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت نے سول آرمڈفورسز کے ایک لاکھ ترپن ہزارنوے آفیسرز اوراہلکاروں کی قوت کو بروئے کار لانے کافیصلہ کیا ہے جس میں ایف سی خیبرپختونخوا کے چالیس ہزار نوسو اسی افسر واہلکار، ایف سی بلوچستان کے تینتالیس ہزار دو سوانتیس افسرواہلکار، پاکستان رینجرز پنجاب کے اکیس ہزار چار سو چار افسرواہلکار،پاکستان رینجرز سندھ کے انیس ہزار آٹھ سو آٹھ افسر واہلکار، فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اکیس ہزار پانچ سو چھیانوے افسر واہلکار ، پاکستان کوسٹل گارڈز کے تین ہزار چھ سو ستر افسرواہلکار اورگلگت بلتستان سکاؤٹس کے دوزہزار تین سو تینتالیس افسر واہلکار شامل ہیں۔

دہشتگردی پرقابو پانے کیلئے ایف آئی اے، اسلام آباد پولیس ،نادرا ، سول ڈیفنس، ایئرونگ کے اداروں کی خدمات کو بھی استعمال میں لایاجائیگا جبکہ پاکستان کی26 مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کامربوط نظام کیاجارہا ہے صوبائی اورضلعی سطح پر فاسٹ رسپانڈیونٹس کو دہشتگردوں کی نشاندہی پر کارروائی کیلئے تربیت دی گئی ہے۔

دستاویز کے مطابق دہشتگردوں کو مالی وسائل کاراستہ روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے پالیسی کی حتمی منظوری آئندہ کابینہ اجلاس میں دی جائے گی ذرائع کے مطابق اس لائحہ عمل کی تشکیل کیلئے تمام سیکیورٹی انٹیلی جنس اداروں بشمول پولیس اورپاک افواج سے پانچ ماہ تک مشاورت کی گئی ہے واضح رہے کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی اندرونی سلامتی پالیسی ریکارڈ چھ ماہ کی مدت میں تیار کی گئی ہے جبکہ امریکہ اوردنیا کے دیگر ممالک میں اپنی پہلی اندرونی سیکیورٹی پالیسی کی تیاری میں ایک سے دو سال کی مدت لگی۔