قائد متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین کی صدارت میں رابطہ کمیٹی لندن اور پاکستان کامشترکہ اجلاس،پولیس بس پر حملے کی شدید مذمت اور شہید اہلکاروں کے لواحقین سے اظہار تعزیت، حکومت اورآرمی چیف ،دہشت گردی کے خاتمے اور شہریوں کے تحفظ کیلئے ٹھوس فیصلہ کریں، الطاف حسین،ورنہ قوم کو آگاہ کیاجائے کہ فوج، داخلی سرحدوں کی حفاظت اورعوام کادفاع کرنے سے کیوں قاصرہے،طالبان نے چوہدری اسلم کے قتل کی جس طرح ذمہ داری قبول کی وہ حکومت کے منہ پر طمانچہ ہے، اجلاس سے خطاب

جمعرات 13 فروری 2014 22:10

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13 فروری ۔2014ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی صدارت میں رابطہ کمیٹی لندن اور پاکستان کے ارکان کا مشترکہ اجلاس ہواجس میں متفقہ طورپر رزاق آبادمیں پولیس ٹریننگ سینٹرکے قریب پولیس اہلکاروں کی بس پر حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کی گئی اوردہشت گردی کے اس واقعہ میں متعددپولیس اہلکاروں کے شہید وزخمی ہونے پر دلی افسوس کااظہارکیاگیا ۔

اجلاس میں شہید پولیس اہلکاروں کے سوگوار لواحقین سے دلی تعزیت اور ہمدردی کا اظہارکیا گیا اور زخمی اہلکاروں کی جلدومکمل صحت یابی کیلئے دعا کی گئی۔رابطہ کمیٹی کے مشترکہ اورطویل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہاکہ جس دن سے طالبان سے مذاکرات کاآغاز ہوا ہے اس دن سے بم دھماکوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور کراچی میں پولیس کی بس پر دہشت گردی کاواقعہ بھی پاکستان میں جاری دہشت گردی کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔

(جاری ہے)

الطاف حسین نے کہاکہ آج دہشت گردی کے واقعہ میں وردی میں ملبوس جو سرکاری اہلکار ملک کا دفاع اور عوام کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانوں سے گزر گئے ان میں سے بیشتر اپنے خاندان کے واحد کفیل ہونگے ، کسی کے بھائی، بیٹے ،شوہر،والد اور بہنوں کے رکھوالے ہوں گے ۔ ان متاثرہ خاندانوں کے دکھ اور کرب کی شدت کو ایم کیوایم کے علاوہ کوئی جماعت محسوس نہیں کرسکتی ہے اورہم انکے دکھ اور غم میں برابر کے شریک ہیں ۔

ہم سالہا سال سے ریاستی طاقتوں اور دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایم کیوایم کے کارکنوں کے جنازے اٹھاتے رہے ہیں، حراست کے دوران انہیں جس طرح سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اسے الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ ریاستی ظلم وتشدد کا نشانہ بننے والے ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان اپنی جانوں سے گزرگئے ، وہ بھی اپنے خاندان کے کفیل، کسی کے بھائی، بیٹے ، والد ، شوہراور بہنوں کے سہارے تھے۔

الطاف حسین نے کہاکہ بے گناہ انسانوں کاقتل، مساجد ، امام بارگاہوں پر بم دھماکے ، حساس فوجی تنصیبات کو بموں سے اڑانے ، فوج اور دیگرقانون نافذ کرنے والے ادار وں کے افسران وجوانوں کی گردنیں کاٹ کر فٹ بال کھیلنا دہشت گردی اور سفاکیت کی انتہاء ہے اس کے باوجودجب تمام جماعتوں نے دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی تو ایم کیوایم نے دل پر پتھر رکھ کر اے پی سی میں طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ایم کیوایم مذاکراتی عمل کو خراب کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم کا واضح موٴقف ہے کہ ریاست کی عزت ووقار اور حکومت کی رٹ برقراررکھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کیے جائیں لیکن مذاکرات کے آغاز سے آج کے دن تک دہشت گردوں کے حملے اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ الطاف حسین نے کہاکہ ایک جانب مذاکرات کے شادیانے بجائے جارہے ہیں جبکہ دوسری جانب دہشت گرد اپنی سفاکانہ کارروائیوں کے ذریعہ ہرگھر میں ماتم بپا کررہے ہیں۔

گزشتہ روز بھی طالبان کے نمائندہ کا بیان سامنے آیا ہے کہ طالبان پاک فوج کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے اور اور موقع ملاتو فوج کے جرنیلوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ الطاف حسین نے کہاکہ پولیس اہلکاروں کے شہید وزخمی ہونے پر ہمارے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں لیکن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ایم کیوایم کو ریاستی دہشت گردی کانشانہ بنایا جارہا ہے ، آج بھی ایم کیوایم کے تین سیکٹرممبرز سمیت 45 کارکنان لاپتہ ہیں۔

ان لاپتہ کارکنان کی بازیابی کیلئے پٹیشن دائر کیے جانے کے باوجود عدلیہ،پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان لاپتہ کارکنوں کو بازیاب کرانے میں ناکام ہیں ، جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے ہی امن کے قیام اور دہشت گردوں سے نمٹنے اور شہریوں کی جان ومال کاتحفظ کرنے میں ناکام ہوجائیں تو ہم اپنی فریاد کس کے پاس لیکر جائیں؟ الطاف حسین نے کہاکہ ان حقائق کی روشنی میں جب میں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے اپیل کی کہ وہ ملک میں امن وامان کی صورتحال کا جائزہ لیں اور بے گناہ شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنائیں تومیرے بیان پر اعتراضات کیے گئے کہ آرمی چیف سے اپیل کیوں کی گئی۔

میں ان معترضین سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ ان کاکوئی عزیزکسی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنا ۔اگرخدانخواستہ ان کا کوئی عزیز رشتہ داردہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بنتا تو انکے جذبات بھی ہم سے مختلف نہیں ہوتے۔ الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھرحکومت بالخصوص مسلح افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ یہ متحدہ قومی موومنٹ اور ایک ایک دردمندپاکستانی کا مطالبہ ہے کہ وہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے ، قیام امن اور بے گنا ہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کیلئے کوئی ٹھوس فیصلہ کریں۔

اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر قوم کو حقائق سے آگاہ کیاجائے کہ فوج ،پاکستان کی داخلی سرحدوں کی حفاظت کرنے اور ملک کے عوام کادفاع کرنے سے کیوں قاصرہے۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے محکمہ پولیس کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے ۔ الطاف حسین نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دہشت گردی کے واقعہ میں شہیدہونے والے پولیس اہلکاروں کو اپنی جواررحمت میں جگہ دے ، انکے سوگوارلواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے ،زخمی پولیس اہلکاروں کو صحت یاب کرے ،پاکستان کو دہشت گردوں سے نجات دلائے ، پاکستان کے حکمرانوں کواتنی ہمت دے کہ وہ ملک وقوم کے مفادمیں جراتمندانہ فیصلے کرنے میں کامیاب ہوسکیں اور پاکستان اور اس کے عوام کی جان ومال کاتحفظ کرسکیں۔

الطاف حسین نے سندھ حکومت کے ترجمان کے اس بیان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا جس میں کہاگیا ہے کہ پولیس بس پر حملہ کراچی میں پولیس کی کارروائیوں کا ردعمل ہے جبکہ طالبان کی جانب سے رزاق آباد کے قریب پولیس بس پر بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی ہے لیکن سندھ حکومت کے ترجمان اور ایم کیوایم کے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے المناک واقعات پر انعامات دینے والے پولیس افسران کی جانب سے ان ماورائے عدالت قتل کے واقعات پرتو پولیس کادفاع کیا جاتا ہے لیکن پولیس اہلکاروں کے وحشیانہ قتل عام میں ملوث طالبان دہشت گردوں کا نام لیتے ہوئے انکی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کہ سندھ حکومت اور اس کے کارندے پولیس بس پر طالبان دہشت گردوں کے حملے پرجس قسم کے اونگے بونگے بیانات دے رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کراچی آپریشن کے حوالہ سے موجودہ سندھ حکومت کی نیت قطعی ٹھیک نہیں اور سندھ حکومت نے بھاری مال اور اثرورسوخ استعمال کرکے اس آپریشن کارخ ایم کیوایم کی جانب موڑدیا ہے ۔ اب یہ آپریشن طالبان دہشت گردوں اور بقول سپریم کورٹ کہ ہرجماعت میں عسکری ونگ موجود ہیں ، ان کی سرکوبی کیلئے یہ آپریشن نہیں کیاجارہا ہے بلکہ اس کا دائرہ 19، جون 1992ء کی طرح ایک مرتبہ پھرایم کیوایم اور مہاجروں کوکچلنے کیلئے صرف اور صرف ایم کیوایم کی طرف موڑدیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ میں،عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ آپریشن طالبان دہشت گردوں ، دیگرانتہاء پسند مذہبی تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کیلئے ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کا رخ ایم کیوایم کی جانب موڑدیا گیا ہے اورکراچی آپریشن کے حوالہ سے سندھ حکومت کی جانب سے سوفیصد غلط بیانی سے کام لیکر وفاقی حکومت کو گمراہ کیاجارہا ہے ۔ وگرنہ سندھ حکومت کے لوگ عوام کو جواب دیں کہ طالبان اور دیگرانتہاء پسند مذہبی تنظیموں کے دہشت گردوں کو کہاں کہاں گرفتار کیا گیا اور کہاں کہاں ان دہشت گردوں کو حراست کے دوران قتل کیا گیا؟انہوں نے کہاکہ طالبان نے سی آئی ڈی کے افسر چوہدری اسلم کو جس دیدہ دلیری کے ساتھ دن دہاڑے قتل کیا اور اس کی ذمہ داری قبول کی وہ حکومت اور انتظامیہ کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہے ۔

اس واقعہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اور انتظامیہ ، کراچی میں طالبان کے اڈوں اور طالبان دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن لیتیں لیکن اس کے برعکس پولیس اور رینجرز کو صر ف اور صرف ایم کیوایم کو کچلنے اور مہاجروں پر ظلم ڈھانے پر لگادیا گیا جبکہ طالبان دہشت گردوں کو کھلی آزادی دے دی گئی جس کا نتیجہ آج کے المناک سانحہ میں درجنوں پولیس اہلکاروں کے شہید وزخمی ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔