اگست میں خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں جامع مذاکرات کا عمل بحال کرنے پر بات ہو گی ،پاکستان ، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے معاملہ پر دونوں جانب کچھ حل طلب معاملات موجود ہیں،ایل او سی پر حالیہ فائرنگ بھارت کی جانب سے کی گئی جس کا پاکستان کی طرف سے صرف جواب دیا گیا،، افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے تعلقات چاہتے ہیں ، حقانی نیٹ ورک کو آپریشن سے قبل وزیرستان سے نکالنے کی بات الزام تراشی ہے ، پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسی کے تحت الزامات کا جواب الزامات سے نہیں دیا جاتا ،غزہ کی صورتحال باعث تشویش اور قابل مذمت ہے، پاکستان فلسطینیوں کے موقف کا حامی ہے ، اسرائیلی جارحیت بند کرانے کیلئے عالمی سطح پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں ، سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری

جمعرات 24 جولائی 2014 19:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24جولائی۔2014ء) پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ اگست میں خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات میں جامع مذاکرات کا عمل بحال کرنے پر بات ہو گی ، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے معاملہ پر دونوں جانب کچھ حل طلب معاملات موجود ہیں ، ایل او سی پر حالیہ فائرنگ بھارت کی جانب سے کی گئی جس کا پاکستان کی طرف سے صرف جواب دیا گیا،افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسائے کے تعلقات چاہتے ہیں ، حقانی نیٹ ورک کو آپریشن سے قبل وزیرستان سے نکالنے کی بات الزام تراشی ہے ، پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیکے تحت الزامات کا جواب الزامات سے نہیں دیا جاتا ،غزہ کی صورتحال باعث تشویش اور قابل مذمت ہے ، پاکستان فلسطینیوں کے موقف کا حامی ہے ، اسرائیلی جارحیت بند کرانے کیلئے عالمی سطح پر فعال کردار ادا کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ترجمان دفتر خارجہ کی پریس بریفنگ میں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بھی شرکت کی ۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ انہوں نے غزہ کی صورتحال پر حکومت پاکستان کا موقف پیش کرنے کیلئے اس پریس بریفنگ میں آنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی میں غزہ کے معصوم اور سویلین اور غیر مسلح شہری جاں بحق ہو رہے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کے موقف کا حامی ہے موجودہ بحرانی صورتحال میں پاکستان میں اسرائیلی جارحیت پر اعلیٰ ترین سطح پر اپنا موقف بیان کیا ہے اور وزیراعظم نے اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کی مذمت کی ہے اور فلسطینیوں بھائیوں کے ساتھ پاکستانی عوام کی طرف سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے ۔ وزیراعظم کی ہدایت پر پاکستان نے عالمی رائے کو متحرک کر کے اسرائیلی جارحیت ختم کرانے کی کوششیں کی ہیں اور گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ اپنی گزشتہ روز ٹیلیفونک گفتگو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی خارجہ سیکرٹریوں کی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات 25 اگست کو اسلام آباد میں ہو گی جس کا مقصد 27 مئی کو نئی دہلی میں دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہونیوالی ملاقات کی روشنی میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ہے ۔

ہم 25 اگست کی ملاقات میں جامع مذاکراتی عمل کی بحالی پر بات کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایک اور سوال پر سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے دراندازی کے الزمات بے بنیاد ہیں ایل او سی پر حالیہ فائرنگ بھارت کی جانب سے کی گئی جس کا پاکستان کی طرف سے صرف جواب دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ڈی جیز ایم او کی سطح پر ہاٹ لائن کے میکنزم کو بھر پور انداز میں استعمال کیا جانا چاہئے ۔

بھارت کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے حوالے سے سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دو طرفہ تجارت کو معمول پر لانے کے سلسلہ میں مسلسل بات چیت کرتے رہے ہیں ہماری وزارت تجارت اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے اور دونوں ممالک کے مفاد کی بنیاد پر مفید اقدامات کئے گئے ہیں ۔ مذاکراتی عمل کے بحال ہونے پرتوقع ہے کہ اس حوالے سے اب تک ہونیوالے اقدامات پر پیش رفت ہو سکے گی ۔

انہوں نے کہا کہ دونوں جانب متعدد معاملات ایسے موجود ہیں جو حل طلب ہیں جن میں کمزور شعبوں کا تحفظ بھارت میں نان ٹیرف رکاوٹوں کا معاملہ تجارت میں عدم توازن کا معاملہ اور انفراسٹرکچر سے متعلق بعض معاملات شامل ہیں جنہیں آپ رکاوٹ قرار دے سکتے ہیں اور انہی معاملات پر بات چیت اور پیش رفت جاری ہے ۔ پاکستان سے افغانستان فرار ہونیوالے دہشتگردوں اور ملا فضل اللہ کی حوالگی کے حوالے سے ایک سوال پر اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ اس سلسلہ میں میں نے بھی میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ ان رپورٹوں کی بنیاد کیا ہے مجھے اتنا معلوم ہے کہ ہم افغان حکومت کے ساتھ مستقل رابطہ رکھے ہوئے ہیں جب افغانستان کی قومی سلامتی مشیر ڈاکٹر رنگین سپانتا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اس دوران نہایت مفید بات چیت ہوئی تھی اور اس سلسلہ میں مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی بارے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے اور فوج کے فوج سے رابطے قائم ہوئے ہیں ۔ دونوں طرف سے خیالات کا تبادلہ کیا گیا ہے پاکستانی قیادت کی شدید خواہش ہے کہ افغانستان کے ساتھ اچھے ہمسائیوں کے تعلقات قائم کئے جائیں ہم نے شمالی وزیرستان میں پوری قوم کی حمایت سے بڑا آپریشن شروع کیا ہے صدر مملکت ، وزیراعظم اور ہر سطح کی قیادت کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ آپریشن تمام عناصر کیخلاف ہے لیکن ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان سے فرار ہونیوالے دہشتگردوں کو روکا جائیگا اور افغان سر زمین کسی کو پاکستان کیخلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ۔

ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام ممالک دہشتگردی کا مقابلہ کرنے خطے کو اس لعنت سے پاک کرنے کیلئے تعاون کرینگے ۔ پاکستان اپنے طور پر اپنا بھر پور کردار ادا کرتا رہے گا اور افغان حکومت کے ساتھ قریبی رابطے قائم رہیں گے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی کو وزیراعظم کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے افغانستان بھیجا گیا تھا اور میں ان کے ہمراہ تھا افغان قیادت کے ساتھ بات چیت ہوئی تھی اس کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان مخالف عناصر خاص کر تحریک طالبان پاکستان پاکستانی چوکیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس لئے ضروری تھا کہ افغانستان سے تعاون کی بات کرے ایسی بھی اطلاعات تھیں کہ افغانستان میں بعض ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جن کے خطے اور ہم پر اثرات ہوں اس لئے افغانستان کو اس حوالے سے آگاہ کرنا اہم تھا ۔

افغان حکام کے الزام کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے قبل پاکستانی حکام نے حقانی نیٹ ورک کو علاقہ خالی کرنے کو کہا تھا سے متعلق سوال پر سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ وہ الزمات کا جواب الزمات سے نہیں دونگا یہ پاکستانی حکومت کی پالیسی نہیں ہے جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے ہمیں واضح ہدایات ہیں کہ الزام تراشی نہ کی جائے بلکہ صرف تحمل اور ذمہ داری سے جواب دیا جائے اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں ۔