سیلاب میں پھنسے ہزاروں لوگ حکومتی امداد کے منتظر

پیر 8 ستمبر 2014 12:43

سیلاب میں پھنسے ہزاروں لوگ حکومتی امداد کے منتظر

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔8 ستمبر۔2014ء) سیلاب کے ماروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ گھر ڈھے گئے ، مال مویشی بہہ گئے، خاندان کے خاندان دیکھتے ہی دیکھتے بے سر و سامان ہوگئے ، پانی میں گھرے زیادہ تر لوگ ابھی تک امداد کے منتظر ہیں۔ کیسے کیسے تھے خواب ، سب بہہ گئے بے رحم سیلاب میں ، کون کہتا ہے سیلاب اندھا ہوتا ہے۔ اندھا ہوتا تو کسی پکے گھر پر بھی تو اس کا ہاتھ پڑتا۔

اس کا زور بھی صرف جھونپڑوں اور کچے گھروں پر ہی چلتا ہے۔ صرف پانچ دن کے دوران وسطی پنجاب اور آزاد کشمیر کے بیشتر علاقے المیوں، دکھوں، غموں، عذابوں اور بربادیوں کی داستان بن کر رہ گئے۔ ہر طرف پانی، پانی اور پانی، تباہی، تباہی بس تباہی اور موت، موت اور بس موت کا راج۔ ایسی تباہی مچی کہ جہاں امید اور خوشی کے تارے جھلملاتے تھے، وہاں سوگ کے گہرے بادل چھا گئے۔

(جاری ہے)

جہاں امید کی کرن تھی، وہاں رات کے اندھیرے کی طرح غم چھا گیا۔ پانی کے خوفناک ریلے ، ریلوں نے جہاں بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں ، وہیں لوگوں کا مال و متاع بھی بہا لے گئے۔ کہیں بیٹیوں کے جہیز بھی بہہ نکلے تو کہیں ساری زندگی کی جمع پونجی ہی پانی کی نذر ہو گئی۔ بدترین سیلاب لوگوں کی امیدیں اور خواب بھی بہا لے گیا۔ اب کیسے کریں گے وہ اپنی بیٹیوں کی شادیاں، نہ گھر رہا نہ کوئی پیسہ، اب کیا ہو گا ،خواب میں بھی خوفناک مستقبل ڈراتا ہے۔

پنجاب اور آزاد کشمیر میں کافی جانی نقصان ہوا جن کے پیارے سیلاب کی نذر ہو گئے۔ ریلیف کیمپوں ان کی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔ بے شمار عورتوں کو بیوگی کا صدمہ سہنا پڑا۔ جب یہ سیلاب اترے گا تو اس کے لگائے ہوئے زخم بھی ہرے ہوں گے۔ متاثرین مایوسی کے عالم میں مدد کے لئے قوم کی طرف دیکھ رہے ہیں .لیکن ابھی تک امدادی سامان جمع کرنے کے لئے شہروں میں کیمپ تک نہیں لگے آج اسی جذبے کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ قوم نے 2005 میں زلزلے اور 2012 ء میں سیلاب کے موقع پر کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :