کوشش کریں گے حجاج مرس سے محفوظ رہیں،سعودی حکام

پیر 15 ستمبر 2014 16:34

کوشش کریں گے حجاج مرس سے محفوظ رہیں،سعودی حکام

عازمین حج کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ، بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی سخت تربیت دی گئی ہے، محکمہ صحت ریاض سعودی عرب میں صحت کے حکام نے کہا ہے کہ وہ اگلے ماہ حج سے پہلے جان لیوا وائرس مرس پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایم ای آر ایس (میرس) یعنی مشرق وسطیٰ میں سانس کی بیماری کا باعث بننے والا یہ وائرس بخار اور کھانسی پیدا کرتا ہے اور سنہ 2012 سے اب تک سعودی عرب میں 300 لوگوں کی جان لے چکا ہے جبکہ 700 سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہیں۔میرس کا پہلا کیس دو سال پہلے سامنے آیا تھا اور اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رواں برس حج کے موقعے پر دنیا بھر سے 20 لاکھ افراد کے جمع ہونے سے اس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

سعودی حکومت پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اْس نے اس بیماری پر قابو پانے کے لیے ناکافی اقدامات کیے ہیں مگر سعودی حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ عازمین حج کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔میرس کے متعلق سعودی عرب حکومت کے مشیر پروفیسر طارق مدنی نے کہا: ’ہم نے حج کے لیے بہت انتظامات کیے ہیں تاکہ حج بغیر اس (میرس) طرح کے کسی معاملے کے بحسن و خوبی انجام پائے۔

سعودی عرب کے محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی سخت تربیت دی گئی ہے۔سعودی عرب کے نگراں وزیر صحت عادل بن محمد فقیہہ نے کہا: ’میرس اب سعودی عرب کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تمام تر ممکنہ کوشش کریں گے اور کر رہے ہیں تکہ ہمارے تمام مہمانان محفوظ حج ادا کر سکیں۔البتہ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صورتحال اب بھی صحتِ عامہ کا مسئلہ ہے اور اْس نے عازمین حج کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سفر کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹروں سے مشورہ ضرور کریں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اونٹوں کے نزدیک رہ کر کام کرتے ہیں انھیں احتیاط برتنی چاہیے اور ماسک اور دستانے استعمال کرنے چاہیں۔فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مرض اونٹوں سے انسانوں میں کس طرح منتقل ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شاید اس وائرس سے متاثر اونٹ کے ناک اور منھ سے نکلنے والی رطوبت یا پھر کچا دودھ بھی اس کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔

شاید اسی لیے ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اونٹوں کے نزدیک رہ کر کام کرتے ہیں انھیں احتیاط برتنی چاہیے، انھیں ماسک اور دستانے استعمال کرنے چاہیں اور کچا دودھ نہیں پینا چاہیے۔لیکن سعودی عرب میں عام طور پر اس طرح کی احتیاط نظر نہیں آتی۔ جبکہ یوسف کا کہنا ہے: ’میں گذشتہ 17 برسوں سے روزانہ کچا دودھ پی رہا ہوں اور میں ٹھیک ہوں۔ یہاں سب محفوظ ہے۔ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس وائرس کو پھیلانے میں اہم کردار اونٹوں کا ہے یا پھر چمگادڑ اسے پھیلاتے ہیں لیکن انسانوں سے انسانوں میں یہ وائرس چھینک یا کھانسی کے چھینٹوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔