مڈٹرم انتخابات سے متعلق خورشید شاہ سے منسوب بیان درست نہیں ،آئین کے تحت وسط مدتی انتخابات ہوئے تو تیار ہیں‘ پیپلز پارٹی،حکومت کو درپیش خطرہ ختم نہیں ہوا فی الحال ٹلا ہے ،حکومت ہوش کے ناخن لے ،دھاندلی کی بنیاد پر جب بھی حکومت گئی تو دس ،دس سال بحال نہیں ہوئی ،پیپلز پارٹی اس بنیاد پر حکومت کو گرانے کے چکر میں نہیں ،وزیر اعظم دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے سینئر پارلیمنٹرینز کی بااختیار کمیٹی بنائیں ،کسی کے مقابلے میں جلسہ نہیں کر رہے ،میثاق جمہوریت دستاویز پر حالات کے مطابق نظر ثانی کی ضرورت ہے‘ قمر زما ن کائرہ کی پریس کانفرنس

بدھ 1 اکتوبر 2014 18:56

مڈٹرم انتخابات سے متعلق خورشید شاہ سے منسوب بیان درست نہیں ،آئین کے ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔1اکتوبر۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے مڈٹرم انتخابات سے متعلق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سے منسوب بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرآئین میں درج طریق کار کے مطابق مڈ ٹرم ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی اسکے لئے ہر وقت تیار ہے ،حکومت کو درپیش خطرہ ختم نہیں ہوا بلکہ فی الحال ٹلا ہے اس لئے حکومت ہوش کے ناخن لے ،جب بھی الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد پر حکومت گئی ہے تو وہ دس ،دس سال بحال نہیں ہوئی اس لئے پیپلز پارٹی اس بنیاد پر حکومت کو گرانے کے چکر میں نہیں ،دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے وزیر اعظم نے ابھی تک کوئی کمیٹی نہیں بنائی بلکہ تمام کمیٹیاں خود خود بنی ہیں ، وزیر اعظم سینئر پارلیمنٹرینز پر مشتمل بااختیار کمیٹی بنائیں اور اسکی خود نگرانی کریں او ر عمران خان ‘ طاہر القادری بھی اسی طرز پر کمیٹیاں تشکیل دیں ۔

(جاری ہے)

لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی ایک صوبے میں حکومت ہے اور اسکی قیادت سب سے مقبول جماعت ہونے کا دعویٰ بھی کرتی ہے ، کسی کو بھی کسی جماعت کی قیادت پر اعتراض کا حق حاصل ہے لیکن اس میں الفاظ کے چناؤ کا خیال رکھنا چاہیے اور رواداری کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے ۔ ہم مفاہمت کی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن مفاہمت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غلطیوں کی نشاندہی نہ کی جائے ۔

تلخیوں سے رویے تلخ ہو جاتے ہیں جو درست نہیں ، جمہوریت اکیلے چلنے کا نام نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے میثاق جمہوریت کو لندن پلان قرار دیا ہے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ پلان وہ ہوتا ہے جو خفیہ ہوتا ہے جبکہ میثاق جمہوریت عوامی معاہدہ تھا جو ساری دنیا کے سامنے ہوا تھا دو بڑی جماعتوں کے بعد تمام جماعتوں کو بلا کر اس پر دستخط کرائے گئے ۔

یہ خفیہ دستاویز نہیں بلکہ جمہوریت کی بحالی اور آمر کے خلاف قومی اکٹھ کی دستاویز تھی یہ جمہوریت کی طرف سفرنا مہ ہے اور ناقدین بھی اسے مانتے ہیں ۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے زیادتیوں ‘ نا انصافیوں اور تکلیفوں کو بلا کر معاہدہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اب اس دستاویز پر نظر ثانی کی جائے اور اس میں حالات کے مطابق تبدیلی کی جائے جس کی ضرورت ہے اور ہم اسے خوش آمدید کہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اسلام آباد کے دھرنوں سے نمٹنے کیلئے تساہل سے کام لیا ہے اور حکومت دھرنے والوں کو تھکانا چاہتی ہے ۔ میرے عمران خان سے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر شدید اختلافات ہیں لیکن سیاست میں ضد نہیں چلتی ۔ عمران خان کے جو مطالبات درست ہیں ہم بھی انکی حمایت کرتے ہیں ۔ حکومت کی خواہش ہے کہ دھرنے والے ناک رگڑیں اور انہیں تھکایا جائے تاکہ یہ دوبارہ اکٹھے نہ ہوں لیکن حکومت کی یہ حکمت عملی غلط ہے ۔

اگر عمران خان غلط ہے تو حکومت اس سے بڑی غلطی پر ہے ۔ اگر یہ سلسلہ بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں تک پھیلے گا تو تلخی پھیلے گی اس لئے حکومت اپنی ذمہ داری نبھائے ،طاہر القادری کو بھی انصاف دیا جائے ۔ اس وقت معاملہ دونوں اطراف سے ضد ہے ایک سمجھتا ہے کہ میں نے بات مانی تو دوسرے کی فتح ہو جائے گی اور میری شکست ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم چار سے پانچ سینئر پارلیمنٹرینز پر مشتمل با اختیار کمیٹی بنائیں کیونکہ وزیر اعظم نے معاملے کے حل کیلئے ابھی تک کوئی کمیٹی نہیں بنائی بلکہ جو کمیٹیاں بنی ہیں وہ خود ہی بنی ہیں ۔

وزیر اعظم خود اس کمیٹی کی نگرانی کریں اور عمران خان اور طاہر القادری کو اس طرز پر با اختیار کمیٹیاں بنانی چاہئیں۔ انہوں نے خورشید شاہ کے مڈٹرم انتخابات کے حوالے سے بیان کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بات سید خورشید شاہ سے پوچھی جانی چاہیے لیکن میں کل سے چیخ چیخ کر اس کی تردید کر رہا ہوں کہ انہوں نے اس طرح کی کوئی بات کی ہی نہیں اور کیوں ان سے اس بات کو منسوب کر کے انکی کردار کشی کی جارہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان او رطاہر القادری جب بھی بولتے ہیں کہتے ہیں پیپلز پارٹی نے مک مکا کیا ہوا ہے جبکہ ہمارے کارکن بھی ہمارے سے ناراض ہیں ،پی پی واحد جماعت ہے جو سمجھتی ہے کہ جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جو اس ملک کو اکٹھا کر کے بہتری کی طرف جاتا ہے اور اسکے علاوہ دوسرا کوئی ر استہ نہیں اور ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کو خود اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں چلانے ‘ لڑائیاں لڑ کر مصیبتیں اکٹھی کرنے اور سولو فلائٹ لے کر اپنی پرواز روکنے کا شوق ہے اور اس کا ماضی بھی اس کا گواہ ہے ۔

انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جب پیپلزپارٹی حکومت میں آئی تو ہماری کوئی غلطی نہیں تھی یوسف رضا گیلانی کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن اسکے باوجود آصف علی زرداری نے بلوچ قوم سے معافی مانگی کیوں کہ وہ ماضی کی وجہ سے دکھے ہوئے تھے اور ہم نے انکے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی ۔ بلاول نے کارکنوں سے بات کی ہے ، پی پی کسی سے خوفزدہ نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ترقی کا سفر جمہوریت سے وابستہ ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنے اصول اور بی بی شہید کے دئیے ہوئے سبق کے تحت چل رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کاکسی کے مقابلے میں جلسے کا پروگرام نہیں پیپلز پارٹی ہر سال چار جلسے کرتی ہے جس میں دو بھٹو شہید کی سالگرہ اور شہادت جبکہ اسی طرح دوبی بی شہید کی سالگرہ اور شہادت کے موقع پرمنعقد ہوتے ہیں ۔

پیپلز پارٹی اٹھارہ اکتوبر کا جلسہ کسی کے جلسے کا جواب میں نہیں کر رہی بلکہ بلاول بھٹو اس مقام سے اسی دن سفر کا آغاز کر رہے ہیں جس کا پیپلز پارٹی نے آغاز کیا تھا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا رویہ ٹھیک نظر نہیں آٹا۔ آج کل جو نعرہ مشہور ہے پیپلز پارٹی بھلا یہ نعرہ نہ لگائے لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ رنگ لے آئے کیونکہ حکومتوں کی دور کی نظر خراب اور کان بہرے ہوتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اس نعرے جو جمہوریت کو عدم استحکام سے دوچار کر دے اس کے ساتھ نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم نے کہا کہ یہ آر اوز کا الیکشن تھا اور اسکی اعلیٰ سطحی فورم پر تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر دھاندلی ثابت ہوتی ہے تو پھر کسی کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔