بڑے جلسے حب الوطنی کا ثبوت نہیں،آج مسل دکھانے نہیں سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ‘ آصف علی زرداری،

دنیاکے حالات کے پاکستان اور اسکی عوام پر اثرات پڑ رہے ہیں،سب کو اپنی سیاست کی بجائے پاکستان کے ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا

جمعہ 3 اکتوبر 2014 22:12

بڑے جلسے حب الوطنی کا ثبوت نہیں،آج مسل دکھانے نہیں سیاسی سوچ کا مظاہرہ ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3اکتوبر۔2014ء) سابق صدر و پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پارٹی کے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے منصورہ میں ملاقات کی ،آصف علی زرداری نے سراج الحق سے انکی خوشدامن کے انتقال پر اظہار تعزیت بھی کی جبکہ اس موقع پر اسلام آباد میں جاری دھرنوں سمیت ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ،دونوں جماعتوں کی قیادت نے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا کہ حکومت اسلام آباد کی صورتحال کو سیاسی بصیرت سے حل کرے ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی قیادت نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ تمام جماعتوں کو سیاست اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کے ایجنڈے پر متفق ہونا چاہیے جبکہ دونوں جماعتیں ملاقاتوں کے سلسلے کو آئندہ بھی جاری رکھیں گی۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری انتہائی سخت سکیورٹی میں منصور ہ پہنچے تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق سمیت دیگر نے ان کا استقبال کیا ۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی‘ مخدوم امین فہیم اورمنظور وٹو بھی سابق صدر کے ہمرا ہ منصورہ پہنچے جبکہ ملاقات میں پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ بھی شریک ہوئے ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے فرید پراچہ‘ امیر العظیم ‘ حافظ محمد ادریس ‘ میاں اسلم اور میا ں مقصود بھی ملاقات میں شریک ہوئے ۔

ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہم سب کو پاکستان کا سوچنا ہے بلکہ ہمیں پاکستان کی آئندہ ضروریات کو بھی مد نظر رکھنا ہے ۔پاکستان کو آگے لیجانے کے لئے انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ کو اپنانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا صرف ایک حکومت کا نہیں بلکہ ملک کا ہے ۔ جب پاکستان میں سیاسی حالات کشیدہ ہوئے تو میں اس وقت برطانیہ میں موجود تھا لیکن میں نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو فون کیا اور کہا کہ ہم دوستوں کو اس صورتحال کو سنبھالنا پڑے گا۔

جماعت اسلامی ستر سال سے قائم ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو بھی پچاس سال ہو گئے ہیں ، ہماری سیاسی سوچ ہے اور ہماری ملک کے ہر کونے میں جڑیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ دنیا آج تبدیل ہو رہی ہے اور ملکوں کی نئی شناخت پیدا ہو رہی ہے ،ہر ملک کی اپنی سالمیت کے معاملات ہیں اور نئے بارڈر بننے جارہے ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ آپس کی جنگ ،وزارتوں اور وزرائے اعظم کی جنگ میں ہم اپنا کوئی نقصان کر بیٹھیں اور ملک دشمن عناصر ہماری آنے والی نسلوں کے لئے کوئی سازش کر بیٹھیں۔

سب کو اکٹھا کرنا میرا ایجنڈا ہے او راس کے لئے مجھے ہر سیاسی فورس سے ملنا ہے ۔ ہم نے مفاہمت کی سیاست کو آگے لے کر چلنا ہے اور اسکے ذریعے نا ممکن کو ممکن بنانا ہے ۔ اگر ہم ماضی میں بھی ایسا کرتے تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا اور اس وقت بھی کمزوریاں تھیں اور آج بھی ہیں۔ آج لوگ ضرور یہ پوچھتے ہیں کہ عام آدمی کے حالات میں تو کوئی بہتری نہیں آئی لیکن یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے ، کتنی حکومتیں بدلی گئیں اور کس کو پورا وقت دیا گیا ہے؟ ۔

آج کے دور میں تنہائی کی بجائے سب کو بٹھا کر قومی مفاد میں فیصلے کرنا ہوں گے ۔ موجودہ صورتحال میں سیاسی جرگہ اسی صورتحال کی کڑی ہے او رہم نے اسے بڑھایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج کل دوستوں کے بڑے بڑے جلسے نظر آرہے ہیں لیکن یہ حب الوطنی نہیں بغض معاویہ ہے ، آج انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے آج مسل دکھانے کا نہیں بلکہ سیاسی سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ہمارا چیئرمین ستائیس سال کا ہے لیکن وہ ہمارا ضامن ہے وہ ہمارے وعدوں کا ضامن ہے ۔ہم بھٹو شہید اور بی بی شہید کے روادار ہیں ۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو ہم اسکے ذمہ دار ہیں لیکن اگر انہوں نے اچھے کام کئے تو اس کا کریڈٹ بھی لیتے ہیں ۔ آج کہا جاتا ہے کہ خاندانی سیاست ہو رہی ہے لیکن یہ بھی تو ہے کہ خطرے کے باوجود ہمارے بچے سیاست میں ہیں اور ہمارے بچوں نے کہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک مضبوط ہو رہے ہیں ۔ دنیاکے حالات کے پاکستان اور اسکی عوام پر اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہمیں عوام کا سوچنا ہوگا ہمیں غریب کے بچے کا سوچنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا اور ہم پاکستان کے ایجنڈے پر بات کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ان حالات میں سیاست کرنے جارہے ہیں یہ صحیح ہے کہ جب بل ڈبل آتا ہے تو عوام کا رد عمل سامنے آتا ہے جب آٹے کا بھاؤ بڑتا ہے تو بھی عوام رد عمل دیتے ہیں او رماضی میں کچھ لوگوں نے اس کا فائدہ بھی اٹھایا لیکن ہم وہ سیاست نہیں کرنا چاہتے ۔

ہم نے آئندہ پاکستان کی ضروریات کو دیکھنا ہے ہم نے آئندہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات کو دیکھنا ہے جو پچاس سے ساٹھ ہزار میگا وا ٹ تک پہنچ جائیں گی اور ہمیں اسے پور اکرنے کے لئے طریق کار ڈھونڈنا ہے ۔ ہمیں ونڈ ‘ سولر سے بجلی پیدا کرنی ہے ہمیں ڈیمز بنانے ہیں تاکہ بجلی کی پیداوار بڑھ سکے تاکہ انڈسٹری چلے اور لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو ۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے مل کر دھرنے والوں سے براہ راست بات کرنے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ذمہ داری میں نے اپنے چھوٹے بھائی سراج الحق کو دی ہوئی ہے او ربالآخر سب کو مذاکرات ‘ مذاکرات اور مذاکرات کی طرف ہی آنا پڑے گا۔

سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آصف علی زرداری کو اپنے وفد کے ہمراہ منصورہ آمد پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا چالیس دنوں میں دو سری مرتبہ منصورہ آنا انکی اس سوچ کا مظہر ہے کہ سیاسی جماعتوں او رانکے کارکنوں کے درمیان رابطہ ہو اور ذات اور سیاست سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی خاطر سوچا جائے اور عام آدمی کی مشکلات حل ہو جائیں او رآج کی ملاقات اسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کی سیاست اور جمہوری کلچر میں نئی روایت ڈالی جارہی ہے کہ بتیس سال بعد پیپلز پارٹی کا کوئی رہنما منصورہ تشریف لایا ہے ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور ان رویوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں سندھ گیا اور چار روز وہاں قیام کے دوران پیپلز پارٹی سمیت قوم پرست جماعتوں نے ہمیں عزت او راحترام دیا جو مثبت اپروج ہے اور اس سے کہا جا سکتا ہے کہ سیاست میں اچھی روایت آ رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس نعمت کا فائدہ عوام عام آدمی کو اس انداز میں نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا ۔ پاکستان کا آئین زنجیر کی مانند ہے جس نے چاروں صوبوں کو جھوڑ رکھا ہے اس کو بچانا ‘ بہتر کرنا اور اسکی حفاظت کرنا سب کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیں ماضی کی روایات اور سیاسی رویوں کو چھوڑ کر نئے سیاسی اور جمہوری کلچر کو اپنانا ہوگا او رحکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو اس کا تسلسل دکھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک بحران ہے او اسکے لئے سیاسی جرگہ بنایا گیاہے ،اس میں پیپلزپارٹی کا نمائندہ جب بھی آیا اس نے پارٹی اور سیاسی فائدے کی بجائے اپنا مخلصانہ کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ 14اگست کو پاکستان ایک لڑائی سے بچ گیا او ر ممکن ہے کہ اس روز ایک تماشہ لگتا ، لاشیں گرتی اور لوگ قبرستان کی طرف جاتے لیکن سب کی اجتماعی کوششوں سے یہ دن احترام سے گزر گیا ۔

اسی طرح اسلام آباد میں بھی پڑاؤ ڈالے گئے ہیں لیکن کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ رونما نہیں ہوا اور آئین‘ جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچا ۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے موجودہ مرکزی حکومت عوام کو ڈلیور نہیں کر سکی ورنہ اسے اس صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑتا ۔میاں صاحب او رانکی ٹیم نے اپنے وعدوں اور منشور اور مجموعی طور پر سب کو ساتھ لے کر اور میرٹ اور قانون کی بالا دستی کے ایکشن نہیں دکھائے ورنہ سیاسی قوتوں کے درمیان اتنے فاصلے پیدا نہ ہوتے ۔

اب بھی لمحے باقی ہیں او رعوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو جماعت عام آدمی کی بھلائی اور ریلیف کے ایجنڈے کی طرف آتی ہے ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں اور اس سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اپنے حالات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ عراق او رشام کے حالات سب کے سامنے ہیں او روہاں کے معاشی حالات اور دیگر معاملات کی وجہ سے ریاستیں خطرات سے دوچار ہیں۔

پاکستان عالم اسلام کے قائد کی مانند ہے ، یہ ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے ، اللہ نے ہمیں ہر طرح کے وسائل سے نواز اہے لیکن مس مینجمنٹ کی وجہ سے نتائج نہیں آرہے ۔ اب سب کو اپنے نظریاتی اور سیاسی اختلافات کو بھلا کر اٹھارہ کروڑ عوام او رعالم اسلام کی بھلائی اور دنیا میں عزت کا مقام حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔

متعلقہ عنوان :