دھرنے والوں نے بہت تماشہ کر لیا ہے اب اسے ختم کریں اور گھروں کو جائیں ‘ آصف علی زرداری،ایک جلسہ کرنا ہے تو اسکے لئے فنڈز اکٹھے کرنا مشکل ہے ،ہر روز جلسے کرنیوالے کہاں سے فنڈز لاتے ہیں ؟مذاق میں پارلیمنٹ تڑوا کر بیٹھ جاؤں ایسا نہیں ہو سکتا، سیاست او رکرکٹ میں فرق ہے ، سیاست میں بال ٹمپرنگ نہ کی جائے ، سابق صدر

جمعہ 10 اکتوبر 2014 20:30

دھرنے والوں نے بہت تماشہ کر لیا ہے اب اسے ختم کریں اور گھروں کو جائیں ..

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10اکتوبر 2014ء) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دھرنے والوں نے بہت تماشہ کر لیا ہے اب اسے ختم کریں اور گھروں کو جائیں ،ہم نے ایک جلسہ کرنا ہے تو اسکے اخراجات کیلئے فنڈز اکٹھے کرنا مشکل ہے ،ہر روز جلسے کرنے والے کہاں سے فنڈز لاتے ہیں ؟پیپلز پارٹی نے جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں ، مذاق میں پارلیمنٹ تڑوا کر بیٹھ جاؤں ایسا نہیں ہو سکتا، سیاست او رکرکٹ میں فرق ہے اور کھلاڑی کبھی سیاستدان نہیں بن سکتا ، سیاست میں بال ٹمپرنگ نہ کی جائے ، پیپلز پارٹی ابھی الیکشن نہیں چاہتی جب وقت آئے گا ہم اپوزیشن جماعتیں ملکر الیکشن کی تاریخ بتائیں گے کہ ملک میں انتخابات کب ہو نگے ،کارکنوں سے رابطہ رکھنا چاہتا ہوں اس کیلئے کوئی مڈل مین قبول نہیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلاول ہاؤس لاہور میں سرگودھا ڈویژن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ آصف علی زرداری کے خطاب کے حوالے پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات راجہ عامر ایڈووکیٹ اور لاہور کے سیکرٹری اطلاعات فیصل میر نے میڈیا کو بریفنگ دی ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ مجھے ہمیشہ عوام سے دور رکھا گیا ،جیل میں بھی قید تنہائی میں تھا ، جیل میں بیٹھ کر دیکھتا اور سوچتاتھا اور یہی وجہ ہے کہ مشکلات کے باوجود پانچ سال حکومت کی ۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ دہشتگردی اور عسکریت پسندی کی مخالفت کی ہے ، ہم نے اس مخالفت کا خمیازہ بھی بھگتا لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دہشتگردوں کو پیپلز پارٹی کے سوا ہر جماعت قبول ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہسپتال بنانا قوم پر احسان نہیں، ملک میں اور بھی بڑے بڑے فلاحی ادارے ہیں ۔ ہسپتال بنا کر یہ کہا جارہا ہے کہ ہمیں انتخابات میں کامیاب کراؤ۔

اگر سیاست کا معیار یہ ہو تو پھر ایدھی صاحب کو سیاست کی امامت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایدھی صاحب بہت بڑی شخصیت ہیں ، میں انکا احترام کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کے سامنے بھٹو خاندان کی شہادتوں کی مثال موجود ہے لیکن خطرات کے باوجود وہ سیاست میں آرہے ہیں اس پر ان کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔ لبر ل اور لیفٹ کی سیاست پیپلز پارٹی کی میراث ہے ۔

پاکستان میں خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا رہا وہ سیاست نہیں کر سکتی تھیں لیکن محترمہ بینظیر بھٹو شہید مثال بنیں اور مردوں کے شانہ بشانہ سیاست کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک جلسہ کرنا ہے تو فنڈز اکٹھے کرنا مشکل ہیں معلوم نہیں ہر روز جلسے کرنے والوں کو اتنے فنڈز کہاں سے مل جاتے ہیں ؟۔ہم بھی وی آئی پی کلچر کے خلاف ہیں لیکن ججز سمیت دیگر افراد کو سکیورٹی چاہیے ہوتی ہے ۔

میں نے اپنی حفاظت کے لئے اپنے گھر کی دیواریں اونچی کی ہیں تاکہ میرے تجربے سے ملک و قوم کو فائدہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ بلاول بھٹو اور آصفہ سیاست میں آرہے ہیں جبکہ بختاور آکسفورڈ میں لیکچر دینے جارہی ہیں ان کا بھی سیاست میں آنے کا ارادہ ہے ۔ میں انہیں پریکٹیکل بنانا چاہتا ہوں اور انہیں سیاست میں فری ہینڈ دوں گا ،کارکنوں اور قیادت کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دوں گا ۔

انہوں نے کہا کہ نئے سیاسی ایکشن نے عوام کو ڈرایا ہوا ہے کہ شاید پارلیمنٹ یا حکومت جارہی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ۔ حقیقت صرف پیپلز پارٹی ہی ہے ۔ دھرنا دباؤ کا ایک حربہ ہے ، دھرنے والوں نے میاں صاحب سے بہت سے باتیں منوا لی ہیں اب دھرنا ختم کریں انہوں نے بہت تماشہ کر لیا ہے ۔عوام کو گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ تھوڑے وقت کی بات ہے جب یہ بلبلہ پھٹ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں ، مذاق میں پارلیمنٹ تڑوا کر بیٹھ جاؤں ایسا نہیں ہو سکتا۔ 70ایکڑ میں رہنے والا کیسے سادہ زندگی گزار رہا ہے ۔ وی آئی پی کلچر ختم کرنا ہے تو کنٹینر سے باہرنکل کر لوگوں کے درمیان آؤ ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اگر انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی تو بہت بڑا سیاسی بحران پیدا ہو جاتا۔

ہم نے ملک کی خاطر سب کچھ برداشت کیا ۔ انہوں نے کہاکہ کارکنوں کے تحفظات دور کر کے پارٹی کو فعال کروں گا اور میرے سوا کوئی کارکنوں کے تحفظات دور نہیں کر سکتا۔ میں کارکنوں سے رابطے رکھنا چاہتا ہوں اور کوئی مڈل مین قبول نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ابھی الیکشن نہیں چاہتی ، ہم اپوزیشن جماعتیں ملکر ہم الیکشن کی تاریخ بتائیں گے کہ ملک میں انتخابات کب ہو نگے۔

آصف زرداری نے کہا کہ ہم سسٹم کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسا کرنا ملک اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب پیپلز پارٹی کا دل ہے،شہید ذوالفقار علی بھٹونے سیاست میں بڑے بڑے سیاسی بت گرائے تھے، صوبہ سندھ سے نہیں۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ پنجاب کو پیپلزپارٹی کا گڑھ بنائیں گے۔انہوں نے پارٹی کی تنظیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسکی خود نگرانی بھی کریں گے اور اس عمل میں خود شامل بھی ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ ضلعی اور یونین کی سطح پر ملاقاتوں کا سلسلہ 18 اکتوبر کے بعد شروع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ہر عہدیدار کو اسکے نام سے جاننا چاہتے ہیں جسکے لیے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جب پارٹی یونین کونسل کی سطح تک منظم ہو جائے گی تو انتخابی سطح اسکا مقدر بن جائے گی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ پاکستان کے لیے آج دنیا میں خطرات موجود ہیں ان خطرات کے ہوتے ہوئے ہمیں پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی راہیں تلاش کرنی ہیں۔

انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت انکی بعض ترجیحات پر عمل پیرا ہے جو کہ نیک شگون ہے۔انہوں نے کہا کہ بھٹو ازم ایک فلسفہ ہے عوامی سیاست کا اور غریبوں کے حقوق کا اور ہم اس مشن کی تکمیل کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔ اس سے قبل میاں منظور احمد وٹو نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شرکاء کوچےئرمین کو پارٹی تنظیم کے ضمن میں تجاویز دیں اور 18 اکتوبر کے جلسے میں شرکت کے حوالے سے کوچےئرمین کو آگاہ کیا ۔ انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ اپنے دفتروں اور رہائشگاہوں پر پارٹی کے جھنڈے لہرائیں۔