بھٹو ازم پاکستان کی بقاء ہے، میاں صاحب! ضیاءازم چھوڑ کر بھٹو ازم اپنا لیں، وزیراعلیٰ پنجاب مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے، میں باغی ہوں، میں بھٹو ہوں، جتنے چاہے ظلم کرو: بلاول بھٹو زرداری

ہفتہ 18 اکتوبر 2014 22:07

بھٹو ازم پاکستان کی بقاء ہے، میاں صاحب! ضیاءازم چھوڑ کر بھٹو ازم اپنا ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔18اکتوبر۔2014ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ قائداعظم سے لے کر بی بی شہید تک ایک ہی مشن رہا ہے کہ عوام کی طاقت عوام کو دینی ہے، اسلام ہمارا دین، مساوات ہماری معیشت، طاقت کا سرچشمہ عوام اور شہادت ہماری منزل ہے، بھٹوازم پاکستان کو بچا سکتا ہے، میں باغی ہوں، میں بھٹو ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ کارکنوں کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں۔ قائداعظم نے ہمیں پاکستان کا تحفہ دیا لیکن قائداعظم کو زندگی نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ جمہوریت کا تحفہ دیتے تاہم قائداعظم کا مشن پورا کرنے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو میدان میں آئے اور 73ءکا آئین دے کر بابائے قوم کا نامکمل خواب پورا کر دکھایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ دو قوتیں رہیں، بھٹوازم اور آمریت کے پجاری، 18 اکتوبر 2007ءوہ دن تھا جب آمریت کے مارے ہوئے لوگوں کو امید کی روشنی نظر آئی، وہ دن جب بھٹو کی بیٹی، پاکستان کی پہچان، وہ بی بی جو اپنے وطن کے سارے بچوں کی ماں تھی، اپنے لوگوں کی خاطر ان کے پاس آئی، صرف اس لئے کیونکہ ان کے ملک میں وہ جمہوریت چھین لی گئی جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دی تھی، وہ اپنے لوگوں کی خاطر ان کے پاس آئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ ان کے لئے نکلے، پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایسا مجمع نہیں دیکھا گیا، وہ لوگ ایک امید کے ساتھ آئے تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کی عظیم لیڈر انہیں آمریت اور دہشت گردی سے بچانے آئی ہے۔

اس لئے آمریت کے درندوں نے اس دن کو جمہوریت کے چاہنے والوں کے خون سے سرخ کر دیا۔مشرف کی پیداوار نے پہلے سے کہا تھا کہ رات بارہ بجے یہ جلسہ ختم ہو جائے گا، سٹریٹس لائٹس تک بجھا دی گئیں اور پھر ایک معصوم بچے کے جسم پر بم باندھ پر دھماکہ کیا گیا اور 200 جانثار اپنی لیڈر پر قربان ہو گئے، کراچی کی سڑکوں پر ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا لہو پانی کی طرح بہایا گیا، اس دن نے ثابت کر دیا کہ آج بھی بندوقوں والے ایک لڑکی سےڈرتے ہیں۔


بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ دہشت گردی اور حملے صرف ہم پر کیوں ہوتے ہیں، صرف ہمیں کیوں مارا جاتا ہے، کوڑے بھی ہمارے لئے، بم بھی ہمارے لئے اور گولی بھی صرف ہمارے لئے۔ کبھی قائد عوام اور اس ملک کے پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم کو پھانسی دی جاتی ہے، کبھی مسلم امہ کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم کو سرعام شہید کر دیا جاتا ہے، خودکش حملے بھی صرف ہمارے لئے، جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں دھماکوں اور پھانسیوں سے ڈرائیں گے اور ظلم سے جھکائیں گے، وہ سمجھ لیں کہ بھٹو کبھی ڈرتا نہیں ہے، ہماری ڈکشنری میں ڈرنے کا لفظ ہی موجود نہیں ہے۔

ہمارے پاس شہید ایاز، شہید ناصر بلوچ اور شہید ادریس جیسے جیالے ہیں جو ضیاءکے دور میں رقص کرتے ہوئے اور جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر چڑھ کر شہید ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ ہوئے ظلم کی جھلک دیکھیںاور ہمارے جیالوں کی بہادری اور جذبہ دیکھیں جو بم دھماکے کے وقت بی بی شہید کی طرف بڑھے اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن انہیں اکیلا نہیں چھوڑا، جب ان کے جسم بے جان تھے، چہرے خون سے لبریز تھے، جب ان کی آواز ختم ہو رہی تھی تب بھی ان کے لبوں پر ایک ہی صدا تھی، ایک ہی نعرہ تھا، اب راج کرے گی بینظیر۔

۔۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 27 دسمبر 2007ءکو راولپنڈی کی سڑکوں پر خون بہتا ہے تو ہمارا بہتا ہے، 2011 ءمیں شہید سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو مارا گیا، میں پوچھتا ہوں کہ کیوں؟ کیا اس لئے کہ صرف بھٹو ازم ہی ہے جو آمریت اور انتہاءپسندی کے خلاف ہے، جو بندوق کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنے والوں کے راستے کی دیوار ہے، جو زبان علاقے اور مذہب کی بنیاد پر سیاست نہیں کرتے، صرف بھٹو ازم ہے جو پورے پاکستان کی بات کرتے ہیں، یاد رکھنا بھٹوازم اس ملک کی سلامتی کی ضمانت ہے، بھٹو کی پارٹی پنجاب کا مان ہے، سندھ کی شان ہے، بلوچستان کی جان ہے، یہ بھٹو کی پارٹی کے پی کے کی آن ہے، یہ بھٹو کی پارٹی گلگت کی پہچان ہے، یہ بھٹو کی پارٹی آزاد کشمیر کی زبان ہے، یہ بھٹوازم کا نظام اس ملک کی زنجیر ہے، سارے صوبوں کی زنجیر بینظیر۔

۔۔
یاد رکھنا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی نہیں ہو گی تو روشنیوں کے قافلے تمہارے گھر کا راستہ بھول جائیں گے، ہم نہ ہوئے تو کوئی مہتاب افق نہ دیکھے گا، ایسی نیند اڑے گی کہ پھر کوئی خواب نہ دیکھے گا، آج پاکستان میں ایک طرف بھٹو کے چاہنے والے ہیں اور دوسری طرف آمریت کے چاہنے والے۔ ایک طرف ووٹ کی طاقت سے تبدیلی لانے والے اور دوسری طرف کسی ڈکٹیٹر کی گود سے نکلے ہوئے اور کسی ایمپائر کی انگلی پر ناچنے والے ہیں، ہماری شہید بی بی کی قربانی اور زرداری کے وژن نے بھٹو کا نظام دے کر عوام کو نیا پاکستان دے دیا ہے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے، ہم نے پہلی دفعہ سیاسی طور پر وہ حاصل کر لیا جس کی خاطر ہمارے شہداءنے جانوں کا نذرانہ دیا، اور وہ ہے ایک جمہوری پاکستان۔


پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ 1973 کا دستور بھٹوازم ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت ہے، یہ وہ دستور ہے جس کو ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مولانا مودودی تک سب نے تسلیم کیا۔ یہاں تک کہ وہ جو کل بھٹو کے دشمن تھے، ضیاءکا حقیقی کا بیٹا اور ضیاءکا روحانی وارث دونوں آج بھٹو کے بنائے ہوئے اس دستور پر حلف اٹھاتے ہیں، اس لئے ہم کہتے ہیں جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

آج بی بی کے آصف اور بی بی کے بیٹے کو اس 6 سالہ جمہوریت کو بچانا ہے، میرے ساتھیو آج پورے ملک میں سکرپٹ کا شور مچا ہوا ہے، حکومت بے بس ہے، ملک خانہ جنگی کی طرف جا رہا ہے اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ سکرپٹ کیا ہے۔ میں بتایا ہوں کہ یہ کیا سلسلہ ہے اور اصلی سکرپٹ کیا ہے۔ جس طرح بھٹو صاحب نے کہا تھا مجھے معلوم ہے کہ میرے عوام اور میرے خلاف سازشوں کی کیا کھچڑی پک رہی ہے، یہ سکرپٹ اس وقت لکھا گیا تھا، یہ سکرپٹ کل بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے، یہ آمریت کے پجاری بی این اے اتحاد کی صورت میں قائد عوام کے سامنے آتے ہیں اور کبھی 5 جولائی 1977 کو ہم پر مسلط کئے جاتے ہیں، کبھی 4 اپریل 1979ءکو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیتے ہیں، کبھی یہ آئی جے آئی کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور کبھی فاروق لغاری جیسے سیاسی غدار بن جاتے ہیں، کبھی مشرف جیسے قومی غدار کی شکل میں نازل ہوتے ہیں، کبھی 18 اکتوبر 2007ءکی امید کی کرن کو خون کی ہولی میں رنگتے ہیں، مشرف اور سیاہ لابی مل کر ہماری بی بی کو ہم سے چھین لیتے ہیں اور بی بی کو شہید کر دیا جاتا ہے اور پاکستان ٹکڑوں میں بکھرنا شروع ہو جاتا ہے لیکن مرد آہن صدر زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اور بی بی کے بیٹے نے جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ لگا کر بکھرتے ہوئے ٹکڑے کو زنجیر سے پھر باندھ دیا۔


کبھی یہ سیاسی دجال کے روپ میں سوموٹو سے جمہوریت کو سبوتاژ کرتے ہیں، اس سکرپٹ کا مقصد یہ تھا کہ نواز شریف کو جعلی سپر مینڈیٹ دیا جائے اور پتلی خان کو اپوزیشن لیڈر بنایا جائے، کوئی بہانا بنا کر بھٹو کا نظام توڑ کر ہمیشہ کیلئے جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا جائے، مگر شہید کے جیالوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، آپ نے دہشت گردی، سیاسی دجال اور دھاندلی کے باوجود اپنا اپوزیشن لیڈر بنایا، یہ سکرپٹ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک کوئی کٹھ پتلی وزیراعظم نہ بن جائے تاکہ نظام درہم برہم ہو جائے اور پھر پاکستان میں سول وار شروع ہو جائے۔

اس سکرپٹ میں ملکی و غیر ملکی طاقتیں شامل ہیں وہ پاکستان کو بھی عراق اور سیریا کی طرح بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہاں بھی دنیا بھر کے دہشت گرد اپنے خودکش بمبار تیار کر سکیں ۔ پاکستان میں جتنی تباہی پھیلے گی دشمن اور آمریت کے چاہنے والوں اور انتہاءپسندوں کو اتنا ہی فائدہ ہو گا۔
میرے نوجوان ساتھیو، آج اگر اس ملک کو سول وار سے بچانا ہے تو اس کا حل صرف اور صرف بھٹوازم ہی ہے۔

کیوں تقسیم کرتے ہو میرے ملک کے لوگوں کو؟ کیوں اکٹھے نہیں رہنے دیتے؟ پاکستان کے دشمنو تم ناکام ہو گے، یہ ملک بھٹو کے دیوانوں کا ہے، اور اس ملک میں صرف بھٹو کا نظام چلے گا۔
وزیراعظم صاحب! میں آپ کو بھی یاددلانا چاہتا ہوں آپ اس ملک کے وزیراعظم ہیں، آپ میرے وزیراعظم بھی ہیں، آپ کو کس نے اجازت دی کہ پوری وفاقی حکومت کے تمام تر وسائل ایک دھرنا ختم کرنے میں لگا دیں، کیا بھول گئے تھے کہ آپ پر 20 کروڑ عوام کی ذمہ داری بھی ہے؟ پیپلز پارٹی نے بھی کٹھ پتلیوں کے دھرنے دیکھے مگر اپنی ذمہ داریوں کو نہیں بھولے، ہم نے تو کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی دیکھا، یہ انتہاءپسندی کے خلاف دھرنا تھا، پاکستان کی تاریخ میں اگر کوئی اصلی دھرنا تھا تو وہ میرے ہزارہ بھائیوں کا دھرنا تھا، ہمارے اس وقت کے وزیراعظم خود ان کے پاس گئے تھے اور ہم نے اخلاقی طور پر اپنی ہی حکومت کو ختم بھی کیا لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے کیا کیا؟ 14 معصوم لوگوں کو قتل اور 90 سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا، اور پھر ایف آئی آر بھی انہیں کے خلاف درج کروا دی۔

ایک طرف ہم پاکستان پیپلز پارٹی والے ہیں جو مرہم رکھنے کیلئے اپنی حکومت بھی ختم کر لیتے ہیں اور دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں جو ضیاءکی پیداوار ہیں، آپ جو ظلم کا کوئی احتساب نہیں کرتے، مارتے بھی ہو اور رونے بھی نہیں دیتے، تمہارا شہر، تم ہی مدعی اور تم ہی منصف۔