پھانسی سے قبل ایرانی خاتون ریحانہ جباری کا ماں کے نام جذباتی خط،اعضاء عطیہ کرنے کی خواہش،میری پھانسی پر آپ دکھی نہ ہوں فخر کریں میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا،اعضاء دیتے ہوئے کسی کو میرانام بھی نہ بتائیں، خط

منگل 28 اکتوبر 2014 18:35

پھانسی سے قبل ایرانی خاتون ریحانہ جباری کا ماں کے نام جذباتی خط،اعضاء ..

تہران(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28اکتوبر 2014ء) قتل کے الزام میں پھانسی کی سزاپانے والی ایرانی خاتون نے سزائے موت سے پہلے اپنی ماں کو ایک خط لکھ کر اپنی موت کے بعد اپنے اعضا کو عطیہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا،میڈیارپورٹس کے مطابق دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا یہ خط اپریل میں ہی موصول ہوگیا تھا، لیکن ایران میں امن کے حامی کارکنوں نے اس کو ریحانہ کو پھانسی دیے جانے کے ایک دن بعد عام کیا۔

ریحانی کی والدہ نے جج کے سامنے اپنی بیٹی ریحانہ کی جگہ خود کو پھانسی دیے جانے کی التجا کی تھی۔ریحانہ نے اپنی والدہ کے نام اپنے آخری خط میں لکھا کہ میری عزیز ماں،مجھے آج پتہ چلا کہ مجھے قصاص (ایرانی نظام میں سزا کا قانون)کا سامنا کرنا پڑے گا، مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ آخر آپ اپنے دل کو یہ یقین کیوں نہیں دلا رہی ہیں کہ میں اب اپنی زندگی کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں۔

(جاری ہے)

آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی اداسی مجھے کس قدر پریشان کرتی ہے؟ آپ مجھے اپنے اور پاپا کے ہاتھوں کو چومنے کا موقع کیوں نہیں دیتی ہیں۔ماں، اس دنیا نے مجھے 19 سال جینے کا موقع دیا تھا۔ اس منحوس رات کو میرا قتل ہو جانا چاہئے تھا۔

میری لاش کو شہر کے کسی کونے میں پھینک دیا گیا ہوتا اور پھر پولیس آپ کو میری لاش کو پہچاننے کے لیے بلواتی اور آپ کو پتہ چلتا کہ قتل سے پہلے میرا ریپ بھی ہوا تھا۔

میرا قاتل کبھی بھی گرفت میں نہیں آتا، کیونکہ آپ پاس اس کی طرح نہ ہی دولت ہے، نہ ہی طاقت۔ اس کے بعد آپ کچھ سال اسی عذاب اور پریشانی میں گزار تیں اور پھر اسی عذاب میں آپ بھی انتقال کرجاتیں۔لیکن، کسی لعنت کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ میری لاش تب پھینکی نہیں گئی۔ لیکن، یہاں جیل کی قبر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اسے ہی میری قسمت سمجھیے اور اس کا الزام کسی کے سر نہ ڈالیے۔

آپ بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ موت زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتی۔آپ نے ہی تو کہا تھا کہ انسان کو مرتے دم تک اپنے اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ماں، جب مجھے ایک قاتل کے طور پر عدالت میں پیش کیا گیا، تب بھی میں نے ایک آنسو نہیں بہایا۔ میں نے اپنی زندگی کی بھیک نہیں مانگی۔ میں چلانا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ مجھے قانون پر پورا بھروسہ تھا۔

ماں، آپ جانتی ہیں کہ میں نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا۔ میں کاکروچ کو مارنے کی بجائے اس کو مونچھ سے پکڑ کر اسے گھر سے باہر پھینک آیا کرتی تھی، لیکن اب مجھے ایک ارادے کے تحت قتل کرنے کا مجرم بتایا جا رہا ہے۔ وہ لوگ کتنے پر امید ہیں جنہوں نے ججوں سے انصاف کی امید کی تھی۔ آپ جو سن رہی ہیں، مہربانی کرکے اس پر مت روئیے۔میں اپنی موت سے پہلے آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔

ماں، میں مٹی کے اندر سڑنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی آنکھوں اور جوان دل کو مٹی میں بدلنا نہیں چاہتی، اس لیے استدعا کرتی ہوں کہ پھانسی کے بعد جلد سے جلد میرا دل، میرے گردے، میری آنکھیں، ہڈیاں اور وہ سب کچھ جس کا ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے، اسے میرے جسم سے نکال لیا جائے اور انہیں ضرورت مند شخص کو عطیے کے طور پر دے دیا جائے۔ میں نہیں چاہتی کہ جسے میرے اعضا دیے جائیں اسے میرا نام بتایا جائے۔