واہگہ بارڈر سانحہ، کچھ اہم سوالات

پیر 3 نومبر 2014 12:01

واہگہ بارڈر سانحہ، کچھ اہم سوالات

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔3 نومبر 2014ء) واہگہ بارڈر پر حملے کے بعد یہ سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں کہ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پوری توجہ لاہور میں محرم کی مجالس اور جلوسوں پر مرکوز تھی جس کے نتیجے میں سرحدی علاقہ خودکش حملے کے لیے آسان ہدف بن گیا۔ اس حملے نے سول انتظامیہ اور پولیس حکام کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جو امن و امان کی صورتحال میں کسی اہم واقعے پر فوج اور رینجرز کی معاونت کے خواہشمند ہیں۔

اس واقعے نے انہیں سیکیورٹی اقدامات مزید سخت کرنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ مزید کسی ایسے سانحے سے بچا جاسکے۔ واہگہ سانحے نے عوام کو بھی دہشت زدہ کردیا ہے اور ایسے مطالبات سامنے آرہے ہیں جن میں لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ عاشورہ کے دوران زیادہ محتاط رہیں۔

(جاری ہے)

پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق چار دن قبل سیکیورٹی عہدیداروں پر خودکش حملے کے خدشے کی وارننگ جاری کی گئی تھی۔

اس سانحے کے بعد انتظامیہ اور محرم کے جلوسوں کے منتظمین نے اپنے سیکیورٹی منصوبوں پر نظرثانی کی ہے اور ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے "محرم کی سیکورٹی ہماری اولین ترجیح ہے اور حکومت میں شامل ہر فرد اس کے لیے تیار ہے، ہم نے اس کے لیے بہترین انتظامات کیے ہیں"۔

عہدیدار نے عوام کو مشورہ دیا کہ وہ محتاط رہیں اور کسی بھی مشتبہ شخص یا چیز کی اپنے ارگرد موجودگی پر پولیس کو اطلاع دیں، ہر ایک کو اس خطرے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون

ایک عہدیدار نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے واہگہ بارڈر پر ممکنہ حملے کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا، جس میں ایک گمشدہ نوجوان کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی، جسے خودکش بمبار کے طور پر استعمال کیے جانے کا خدشہ تھا۔

مذکورہ عہدیدار نے بتایا "ریاست مخالف عناصر کی جانب سے دھماکے کے مقام کے انتخاب نے پولیس ماہرین کو حیران کردیا ہے، کیونکہ یہ رینجرز کے ہائی سیکیورٹی زون میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے'۔

سی سی پی او لاہور کیپٹن امین وینس نے بتایا کہ پولیس نے ہفتہ کی شب واہگہ بارڈر پر ممکنہ خودکش حملے کے انتباہ سے رینجرز کو آگاہ کردیا گیا تھا، خودکش حملہ آور بیس سال سے کچھ زائد عمر کا ہوسکتا ہے، اس کے بالوں اور زبان کو فارنسک تجزیے کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔

پولیس اور رینجرز کا خیال ہے کہ دہشت گرد نے اس وقت خود کو دھماکے سے اُڑا لیا، جب وہ پریڈ کے مرکزی مقام تک پہنچنے میں ناکام رہا تھا۔

ڈی جی رینجرز نے کمزور سیکیورٹی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا "اگر یہاں کسی قسم کا خلاء ہوتا تو نقصان اس سے بھی زیادہ ہوتا"۔

رینجرز کے پبلک ریلیشن آفیسر میجر اعجاز نے کو بتایا "جب دھماکا ہوا تو پریڈ کے مرکزی مقام پر چھ ہزار کے لگ بھگ افراد موجود تھے، یہ دھماکا اس مقام سے چھ سو میٹر کے فاصلے پر پاک ہندوستان تجارتی میدان کے قریب ہوا"۔

انہوں نے بتایا کہ دھماکا اس وقت ہوا جب لوگ سول مارکیٹ کی دکانوں میں اشیائے خوردونوش سے لطف اندوز ہورہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اقدامات کی وجہ سے خودکش حملہ آور پریڈ گراﺅنڈ میں داخل نہیں ہوسکا تھا۔علاوہ ازیں پولیس حکام نے سے واضح کیا ہے کہ ان کی جانب سے حملہ آور کا خاکہ جاری نہیں کیا گیا جیسا کچھ نجی ٹی وی چینیلز میں دکھایا جارہا ہے، لاہور پولیس کے ترجمان کے مطابق ابھی خودکش حملہ آور کے سر کو تلاش کیا جارہا ہے تو خاکہ جاری کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کسی کالعدم تنظیم کے سلیپنگ سیل سے ہوسکتا ہے اور ایسے افراد کا عام طور پر کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہوتا۔